یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔ جنگ ہونے سے بہت مسائل پیدا ہوتے ہیں تو کئی مسائل کا خاتمہ بھی ہوتا ہے۔ جنگیں قوموں کی بہادری، شجاعت، دلیری، حکمت اور قائدانہ صلاحیتوں کا پتہ دیتی ہیں۔ کیا آج دنیا کے بڑے اور طاقتور ممالک نے یہ اعزاز لڑے بغیر حاصل کیا ہے۔ کیا تمام بڑے ممالک صلح جو رہے ہیں، کیا انہوں نے ہمیشہ جنگ کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا ہے، کیا وہ جنگ سے بھاگے ہیں، کیا انہوں نے مقابلے سے آنکھیں پھیری ہیں، کیا وہ قومی غیرت پر مصلحتوں کا شکار رہے۔ یقینا ایسا نہیں ہے۔ دنیا کی تاریخ میں بہادر قوموں نے ہی فتوحات حاصل کی ہیں، انہوں نے ترقی کی ہے اور دنیا پر حکمرانی بھی کی ہے۔ امریکہ کو ہی دیکھ لیں کیا امریکہ نے اپنی حفاظت، مفادات یا مخالف ممالک کو زیر کرنے کے لیے کبھی جنگ سے گریز کیا ہے۔ روس اور امریکہ کی جنگ پھر افغانستان پر حملہ تو جدید دور میں سب سے قریبی مثال ہے۔ تاریخ بھی جنگوں سے بھری پڑی ہے اور بہت سے مسائل میدان جنگ میں ہی حل ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی مسائل کا حل جنگ نہیں ہے۔ درحقیقت دونوں ممالک کے مابین مسائل کا حل فیصلہ کن جنگ ہی ہے۔ دونوں ممالک اپنی مختصر تاریخ میں کتنی جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود بنیادی مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ پاکستان چونکہ مسلم اکثریت ملک ہے اور دنیا کے وسائل پر، عالمی اداروں پر غیر مسلموں کا قبضہ اور اکثریت ہے اور مذہبی تعصب کی وجہ سے حق پر ہونے کے باوجود کبھی ہمارے موقف کو پذیرائی نہیں مل سکی۔ باامر مجبوری یا کاغذی کارروائی کرتے ہوئے مسائل زیر بحث ضرور آئے لیکن پائیدار حل کے لیے عالمی امن کے علمبرداروں نے کبھی موثر کردار ادا نہیں کیا۔ کشمیر پر ہونے والی پیشرفت کو ہی دیکھ لیں کیا کسی بڑے غیر مسلم ملک کو ان مسائل کا سامنا ہوتا تو کیا دنیا کا ردعمل یہی ہوتا۔ کیا کبھی غیر مسلموں کے کسی علاقے پر کوئی ملک اتنا لمبا عرصہ قابض رہ کر ظلم و بربریت جاری رکھ سکتا تھا، کیا کبھی کوئی عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں کو اتنی دہائیوں تک غلام بنا کر رکھ سکتا تھا، کیا اتنے روز تک غیر مسلم اکثریتی علاقے کو ادویات، کھانے، معلومات کی فراہمی، رابطوں کے ذرائع سے محروم رکھا جس سکتا تھا اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ سب مسائل مذہبی تقسیم کی بنیاد پر ہیں۔ ان مسائل کے حل میں رکاوٹ مسلم اکثریتی علاقے ہونا یا پھر مسلم اکثریتی علاقے کا منسلک ہونا ہے۔ سلامتی کونسل کشمیریوں کے لیے تو تباہی کونسل سے کم نہیں ہے کیونکہ جو پچاس برس تک دنیا کے سب سے اہم مسئلے کو ایجنڈا میں شامل نہ کر سکے اس سے انصاف، بہتر فیصلے یا تعاون کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ کشمیریوں کے قتل عام پر امن کے علمبرداروں کی خاموشی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ تمہیں مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے، تمہیں پاکستان کے ساتھ جذباتی وابستگی کی وجہ سے لٹکایا جا رہا ہے، تمہارے قتل عام کی اجازت اس لیے ہے کہ تم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر یقین رکھتے ہو۔ یہ سلامتی کونسل، انسانی حقوق یہ سب ڈھکوسلے ہیں، سب فیصلے مذہبی بنیاد پر ہوتے ہیں چونکہ مسلمان ممالک میں اتحاد اور اتفاق کی کمی ہے اور غیر مسلم اس کمی کا بھرپور انداز میں فائدہ اٹھا کر ناصرف مسلمانوں کے قتل عام کا مزہ لیتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ مسلم دنیا کو منفی انداز میں پیش بھی کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کی اس سے بڑی بے حسی کیا ہو گی کہ جو آج تک بیت المقدس کے لیے کچھ نہیں کر سکے وہ کشمیر کے لیے کیا کریں گے۔ بات چیت سے مسائل حل ہوتے تو فلسطینیوں کو ان کا حق دیا جاتا، کشمیریوں کے حقوق غصب نہ کیے جاتے، اگر بات چیت سے مسائل حل ہو سکتے تو امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیوں کیا، بات چیت سے مسائل حل ہو سکتے تھے تو روسی افواج افغانستان میں کیوں لڑتی رہیں۔ دوسروں کو گفتگو کا درس دینے والے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دنیا کو آگ میں جھونکتے آئے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں دنیا کے بڑے ممالک کی جنگ لڑی، فرنٹ لائن اتحادی بھی بنا اور بعد میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور ٹریننگ سنٹرز کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ یہ تمام تماشے طاقتور ممالک کے ہیں وہ جب چاہیں کسی کو فریڈم فائٹرز بنا دیں جب چاہیں انہیں دہشت گرد قرار دے دیں۔
پاکستان کو اپنی سالمیت کے لیے، خود مختاری کے لیے، اپنی نسلوں کو عزت، غیرت، حمیت اور وقار کے لیے اپنے دشمنوں کے خاتمے کے لیے قدم خود اٹھانا ہے۔ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن ہم کبھی ڈرپوک، سہمے ہوئے اور بزدل نہیں سمجھے جائیں گے۔ ہماری نسلوں کو یہ غم نہیں ہو گا کہ جب دشمن نے ہماری شہ رگ کاٹی تو ہم کمزور معیشت کا حساب لگا رہے تھے، ہم امریکہ، چین اور خلیجی ممالک کی طرف امداد کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کشمیر پاکستان کا مسئلہ ہے اور اس مسئلے کا حل فیصلہ کن جنگ ہے۔ جو ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کا درس دے رہے ہیں کیا انہوں نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر پھول برسائے تھے۔ اگر انہیں اس جنگ سے خوف آتا ہے تو کشمیریوں کو حق خودارادیت کیوں نہیں دیتے، اب تک اس مسئلے کو عالمی قراردادوں کے مطابق کیوں نہیں کروا سکے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو، افواج پاکستان کو اگر مگر، آج کل، شاید، چونکہ، چنانچہ کی کیفیت سے نکلنا چاہیے۔ دنیا کی جنگیں لڑتے لڑتے لاکھوں ڈالر کا نقصان کروا لیا ہے، ستر ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا ہے تو کشمیر کے لیے لڑتے ہوئے کمزور معیشت کا خوف کیوں کھائے جائے رہا ہے۔ پاکستان کو دو ٹوک موقف کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ پاکستان نے جوہری ہتھیار اپنی خود مختاری اور آزادی کی حفاظت کے لیے بنائے تھے انہیں استعمال کرنے کا شوق نہیں رکھا دنیا جانتی ہے کہ پہل بھارت کرتا ہے اتنے کشیدہ حالات میں بھی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی پہل کا اشارہ بھارت کی طرف سے آیا ہے پھر ہم کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ متعصب دنیا کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے خطرہ ہے تو انہیں بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں سے خطرہ کیوں محسوس نہیں ہوتا۔ پاکستان میں تو اعتدال پسند جمہوری حکومت ہے جبکہ بھارت میں تو مذہبی انتہا پسندوں کی حکومت ہے۔ وہاں ایٹمی ہتھیاروں کے غلط استعمال کے امکانات زیادہ ہیں۔ دہشت گرد اور قصاب نریندرمودی کو دیکھ کر عالمی طاقتوں کی امن پسندی کہاں سو جاتی ہے۔ دنیا کے امن کو اگر حقیقی خطرہ ہے تو وہ نریندرمودی کی انتہا پسند حکومت سے ہے۔ بہرحال ہمیں دنیا سے غرض نہیں، ہمیں اپنے مسائل حل کرنا ہیں اور بھارت کے ساتھ ہمارے مسائل کا حل فیصلہ کن جنگ ہے۔ جب کشمیری برسوں سے اپنی آزادی کے لیے لڑتے آ رہے ہیں تو بھارت نے تسلیم کردہ متنازع علاقے کی حیثیت ختم کرنے سے پہلے کسی قانون کی پاسداری نہیں کی تو ہمیں کیا مصیبت ہے۔ کل کلاں وہ کوئی اور کارروائی کر دے ہم پھر امن کی خواہش کا اظہار کرتے رہیں۔ وہ بڑھتے بڑھتے سرحدیں عبور کرتا جائے اور ہم پیچھے ہٹتے ہٹتے امن کی خواہش کا اظہار کرتے رہیں تو یاد رکھیں وہ آپکی شناخت کو ختم کرنے کے درپے ہے اور شناخت کی بقا بات چیت سے نہیں ہو سکتی جب دشمن آپکو ختم کرنے کے لیے حملہ کرے تو امن کی خواہش اسے نہیں روک سکتی۔ ستر برس سے ہونے والی بات چیت کو حتمی مرحلے میں داخل کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ جتنی ڈھیل دیں گے اتنا بڑا نقصان اٹھائیں گے، جتنا نظر انداز کریں گے، اتنا کمزور ہوں گے، جتنا حساب کتاب کریں گے اتنے ہی خوفزدہ ہوں گے۔ اب بھی خاموشی سے بیٹھے رہے تو یہ ایل او سی پر ہر دوسرے دن شہید ہونے والوں، پینسٹھ اور اکہتر کے شہدا، تحریک پاکستان اور ہجرت کے شہدا کو کیا جواب دیں گے۔ کیا اتنے شہدا کا قرض بات چیت سے اتارا جا سکتا ہے۔ یقینا نہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024