کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل کااجلاس ہو گیا۔ اس کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے کہ بھارت جو کہتا تھا کہ کشمیر اس کا داخلی مسئلہ ہے زیادہ سے زیادہ وہ اسے دو طرفہ مسئلہ مانتا تھا، اب سلامتی کونسل میں جانے سے یہ ثابت ہو گیا کہ بھارت دنیا کو بیوقوف بنا رہا تھا، صریحاً جھوٹ بول رہا تھا۔ سلامتی کونسل میں زیر غور آنے سے یہ مسئلہ انٹر نیشنلائز ہو گیا اور اب یہ حقیقت دوبارہ سامنے آئی ہے کہ اس کا حل سلامتی کونسل ہی کی قراردادوں کے تحت ممکن ہے۔
بھارت بڑی تاویلیں پیش کرر ہا ہے۔ مگر درج بالا حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ سلامتی کونسل نے کشمیر کے حالات پر تشویش کاا ظہار بھی کر دیا۔ اس سے بھی ظاہر ہو گیا کہ کشمیر اس کا محض داخلی مسئلہ نہیں ، یہ جغرافیئے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کا بھی ایک سنگین مسئلہ ہے اور سلامتی کونسل کے ارکان نے بھارت سے کہا کہ وہ کشمیر میں پابندیوںکا خاتمہ کرے۔چلئے یہ ہو گیا۔ بہت بڑا کام ہو گیا مگر کیا ہمیں اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ جانا چاہئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہر گز نہیں، ہمیں کشمیر کازکو اجاگر کرنے کے لئے اپنی کوششیں تیز تر کرنا ہو ں گی۔ دنیا کو بتانا ہو گا کہ بھارت کی افواج کشمیر میں بے گناہوں پر کیا کیا مظالم ڈھا رہی ہیں۔ حکومت پاکستان کے ذمے دار یہ سمجھتے ہیں کہ بھارتی فوج نازی اور مسولینی سے بڑھ کر جابر ہے ۔ مودی کی سوچ آر ایس ایس جن سنگھ والی ہے اور وہ ہندو تواکے فلسفے میںیقین رکھتا ہے یعنی بھارت صرف ہندووں کا ہے۔ باقی لوگ یا تو ہندو مت قبول کر لیں یا بھارت سے نکل جائیں یا پھر نیست و نابود ہونے کے لئے تیار ہو جائیں ۔ بھارت نے کشمیر میںیہی کام شروع کر دیا ہے اور ہمیں دنیا کو بتانا ہے کہ نسل کشی کی پالیسی کے سامنے بند باندھا جائے۔ مسلم دشمن پالیسیوں کا خاتمہ عمل میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لئے پاکستان نے دو سطحی لائحہ عمل تشکیل دیا ہے ۔ا یک تو فارن آفس میں خصوصی کشمیر ڈیسک کاقیام اور دوسرے دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں کشمیر کا مسئلہ ابھارنے کے لئے کشمیر سیکشن۔ اس لائحہ عمل کو آگے بڑھانے کے لئے وزیر خارجہ نے اپنے محکمے کی سیکرٹری صاحبہ کو پلاننگ کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
بھارت جو کچھ کشمیر میں کررہا ہے۔ اس پر پاکستان گہری نظر رکھے ہوئے ہے کیونکہ صورت حال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے۔ بھارت نے کہہ دیا ہے کہ وہ فرسٹ اسٹرائیک کے معاہدے سے الگ ہو سکتا ہے۔ یہ بیان بھارتی وزیر دفاع نے دیا ہے اورا س سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت خطے میں ایٹمی جنگ چھیڑنا چاہتا ہے اوراس میں اقوام متحدہ کے ساتھ کئے گئے عہدو پیمان کا بھی لحاظ رکھنے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط نہیںکئے لیکن پاکستان ہر گز یہ نہیں کہتا کہ وہ پہل میں ایٹمی اسلحہ استعمال کرے گا مگر پاکستان کے فوجی ترجمان نے یہ تو کہا کہ ہمیں اپنے دفاع کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ دنیا کو خبر دار کیا ہے کہ کشمیر میں بھارت کے یک طرفہ جارحانہ اقدامات سے ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے کیونکہ دونوں متحارب فریق ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی کسی بھی شرارت سے نہ صرف خطے میں بڑی تباہی ہو سکتی ہے بلکہ عالمی امن بھی خاکستر ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے پاکستان کو ان طاقتوں سے بھی نبٹنا ہو گا جو بھارت کو شہہ دے رہی ہیں اور اسے جارحیت پر ابھار رہی ہیں۔ ان میں اسرائیل قابل ذکر ہے وہ تین بار کہوٹہ پر حملے کرنے کی ناکام کوشش کر چکا ہے۔ اور اگر وہ بھارت کی حمائت میں پاکستان کے خلاف جارحانہ کاروائی کرتا ہے تو پاکستان کو مجبوری میں اسے بھی خاموش کراناپڑے گا ۔ا س طرح جنگ کا دائرہ پھیل جائے گاا ور تباہی کا اندازہ لگانا انسانی ذہن کے لئے مشکل ہو جائے گا۔حکومت پاکستان کے ذمے دارا صحاب کئی بار کہہ چکے ہیں کہ نسل کشی کے حربے اسرائیل نے بھارت کو سکھائے ہیں۔نہتے لوگوں کو نشانہ بنانا بھی اسرائیل ہی نے بھارت کو سکھایا ہے۔ اس تناظر میںپاک بھارت جنگ کا دائرہ صرف بر صغیر تک محدود نہیں رہے گا بلکہ مڈل ایسٹ بھی ا سکی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ ہفتے کے روز وزیر خارجہ اور فوجی ترجمان کی میڈیا بریفنگ میں اس خدشے کو نمایاں کیا گیا کہ کشمیر ایک نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے اور دنیا کو اس خدشے کو خوفناک حقیقت کا روپ دھارنے سے روکنا چاہئے ا ورا سکے لئے بھارت پر دبائو ڈالنا چاہئے کہ وہ کشمیر میں بے گناہوں پر مظالم نہ ڈھائے۔ ان کی نسل کشی نہ کرے اور ان کی مرضی کے بغیر ان کی تقدیر کے فیصلے نہ کرے جیسا کہ اس نے آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے کا خاتمہ کیا ہے اور کشمیر کے حصے بخرے کر دیئے ہیں۔ اور کشمیر میں جائیداد خریدنے کی اجازت کی ا ٓڑ میںلوٹ مار اور استحصال کا راستہ کھول دیا ہے۔
فارن آفس اور بیرونی سفارت خانوں میںکشمیر ڈیسک قائم کرنے کا فیصلہ بڑااحسن اقدام ہے اور ان کی مدد سے کشمیر کے مسئلے کو ہمہ وقت اجاگر کرنے کے لئے ایک خود رکار نظام متحرک ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ بیرونی ممالک میں مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لئے سرکار ی ا ور پارلیمانی وفود بھیجے جائیں گے۔ ماضی میں اہم مواقع پرا یسا کیا گیا اور ا سکے اچھے اور مثبت نتائج بر آمد ہوئے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کو بھی فعال کردارا دا کرنے کی ہدایت کی جاسکتی ہے ۔ ماضی میں ا س کمیٹی کی حیثیت محض رسمی رہی اور کسی نہ کسی کی خوشنودی کے لئے اسے اس کا سربراہ بنایا جاتا رہا جس نے اسے مالی مفاد کا ذریعہ بنایا اوربے مقصد بیرونی دوروںمیں قومی خزانہ برباد کیا مگر اب اس کے چیئر مین ایک مسلمہ پارلیمنٹرین سید فخر امام صاحب ہیں جنہیں ٹاسک دیا جائے تو وہ اسے بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں۔ وہ نوابزادہ نصراللہ اور مولانا فضل الرحمن کی طرح انگریزی سے نابلد نہیں۔ اس لئے وہ بڑی آسانی سے بیرونی ممالک جا کر کشمیر کامقدمہ پیش کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے پاس ایک اور رضا کار فورس بھی موجود ہے اور یہ ہیں اوورسیز پاکستانی جو ملکوں ملکوں پھیلے ہوئے ہیں۔ لندن میں انہوں نے فقیدا لمثال مظاہرہ کیا ۔ پھر نیویارک میں بھی ان کی بڑی تعداد نے کشمیر کے حق میں جلوس نکالاا ور فرانس جیسے ملک میں بھی اوور سیز پاکستانیوںنے کشمیر کا مسئلہ زندہ کر دیا ہے ، ایفل ٹاور نے کبھی کشمیر زندہ باد کا نعرہ نہیں سنا ہو گا مگر اب برسوں تک ایفل ٹاور کی بلندیاں ان نعروں کی گونج کو یاد رکھیں گی۔ ہفتے کی میڈیا بریفنگ میں اس نکتے کو بھی نمایاں کیا گیا کہ بھارت کا میڈیا ملکی سیاست میں تو ہر رائے کااظہار کرتا ہے مگر ملک کے دفاع کا سوال ہو تو حکومتی پالیسی کے ساتھ چلتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے بعض نوخیز تجزیہ کار غیر ذمے دارانہ باتوں کے عادی ہیں ۔ انہیں اعلی سطحی حکومتی اور دفاعی ترجمانوں کی بات پر دھیان دینا چاہئے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38