اقوام متحدہ پابندیاں لگا کر ہی بھارت کو استصواب پر مجبور کر سکتا ہے
’’کشمیر عالمی مسئلہ ہے، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہو گا‘‘ یونائیٹڈ نیشن نے پوزیشن واضح کر دی
سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس کے بعد اقوام متحدہ نے بیان جاری کرکے پوزیشن واضح کر دی۔ اقوام متحدہ کی نیوز ویب سائٹ پر بیان میں کہا گیا ہے کہ کشمیر عالمی مسئلہ ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہو گا۔ دریں اثناء انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک مرتبہ پھر بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کیساتھ عالمی انسانی حقوق کے قوانین اور معیار کے مطابق سلوک کیا جائے‘جس میں سیاسی مخالفین کی گرفتاریاں، آزادی سے رہنے اور آزادانہ نقل و حمل کا حق بھی شامل ہے۔ہفتہ کو ایک بیان میں عالمی تنظیم کے سیکریٹری جنرل کومی نائیڈو نے کہا کہ کئی عشروں میں پہلی مرتبہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر پر بات کی ہے‘سلامتی کونسل کے اراکین کو یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے پاس عالمی امن اور سلامتی کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کے اقدامات نے عوام کی زندگیاں مشکل میں ڈال دی ہیں اور برسوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سہنے والوں کو مزید غیر ضروری تکلیف اور پریشانی کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر وزیراعظم عمران خان کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی کا پہلا ان کیمرہ اجلاس ہوا۔ جس میں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کی گئی۔ اجلاس کی صدارت وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔ اجلاس میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ، آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل، ڈی جی ملٹری آپریشنز، وزیر قانون فروغ نسیم، معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان، پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے چیئرمین، اٹارنی جنرل، صدر و وزیر اعظم آزاد کشمیر اور گورنر گلگت بلتستان شریک ہوئے۔ اجلاس کے بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ڈی جی آ ئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور دیگر کے ہمراہ میڈیا بریفنگ دی۔ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا کہ حالات کی مناسبت سے دنیا کو آگاہی دینے کیلئے دفترخارجہ میں کشمیر سیل تشکیل دیا جا رہا ہے، ساتھ ہی ساتھ دنیا کے اہم ممالک میں موجود پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک بھی تشکیل دیئے جائیں گے ، جہاں کشمیر سے متعلق امور پر پاکستان کا فوکل پرسن بھی موجود رہے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاک فوج مایوس نہیں کرے گی، کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گی۔ بھارت آزاد کشمیر کو بھول جائے۔ اب پرانا قبضہ چھڑانے کا وقت ہے۔
بھارت کی جانب سے سلامتی کونسل کا اجلاس رکوانے کی حتی الوسع اور اجلاس کے شروع ہونے تک کوششیں کی جاتی رہیں جن میں بھارت نامراد رہا، بند کمرے کے اجلاس کے دوران جو کچھ ہوا وہ چین کے مندوب نے اجلاس کے بعد پوری دنیا پر آشکار کر دیا تھا، روس کے مندوب کی طرف سے بھی اس کی تائید اور چین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور لداخ کو بھارتی وفاق کے زیر انتظام کرنے پر تشویش ظاہر کی گئی۔ 5 اگست کو کشمیر کے خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام کے خلاف بلاتاخیر غم و غصے سے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرنے لگے، اس پر بھارت نے کرفیو نافذ کر دیا۔ اس کی طرف سے مقبوضہ وادی میں گزشتہ دنوں فوج میں بھی اضافہ کیا گیا۔ سفاکیت میں اپنی مثال آپ بھارتی فوج کی 70 لاکھ کی آبادی کے خطے میں تعداد 9 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے گویا ہر گھر کے دروازے پر مہلک ہتھیاروں سے مسلح ایک فوجی کھڑا ہے۔کشمیری ایسی پابندیوں کو خاطر میں نہیں لا رہے جن کو توڑنا ممکن ہے کرفیو کے نفاذ کے باوجود حریت پسند گھروں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے کئی کو فورسز موقع پر فائرنگ کر کے شہید کر دیتی ہیں کئی کو گرفتار کر کے عقوبت خانوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اب جو کچھ بھارت کے ساتھ سلامتی کونسل میں ہوا اس پر اس کی سبکی ہوئی، مسئلہ کشمیر آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد دنیا میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ زور طریقے سے اجاگر ہوا۔ بھارت کو امریکہ برطانیہ اور فرانس سے توقع تھی کہ وہ پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے معاملے میں بھارت کا ساتھ دیں گے مگر کسی ایک ملک نے بھی اس کا نہ صرف ساتھ نہیں دیا بلکہ کھل کر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی۔ جس کی صداقت اقوام متحدہ کے جاری کردہ بیان سے بھی سامنے آ چکی ہے۔ بھارت کی طرف سے اس بیان کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے وہ اشتعال میں ہے۔
کشمیریوں نے بھارتی فورسز کے مظالم کا بے جگری سے مقابلہ کرتے ہوئے اس کا ناک دم کر رکھا ہے، کشمیری شہید ہوتے ہیں تو وہ ظالم فورسز پر حملے کر کے بدلہ چکانے کی کوشش کرتے ہیں، کشمیری شہدا کی تعداد لاکھوں میں ہے تو جہنم واصل ہونے والے بھارتی فوجی بھی ہزاروں ہیں نفسیاتی مسائل اور پاگل پن سے دوچار ہونے والے بھی انگنت ہیں، جن کی گھریلو زندگیاں تباہ ہوئیں اور خودکشیوں پر مجبور ہوئے وہ بھی کم نہیں۔ بھارتی فورسز کو کسی بھی حد تک کشمیریوں کو دبانے کیلئے ظلم و جبر کے ضابطے آزمانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایسے ظالمانہ احکامات کی بجا آوری انسانیت کی رمق رکھنے والوں کیلئے ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تعینات کئی افسر ایسے احکامات ماننے سے انکار کر چکے ہیں۔ کرنل وجے اچاریہ اس کی تازہ مثال ہے جس نے کشمیریوں پر فائر کھولنے کے بجائے فوج سے استعفیٰ دے دیا مگر ایسے باضمیر افسر آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ کشمیر میں تعینات ہی شدت پسند نظریات رکھنے اور کشمیریوں سے نفرت کرنے والوں کو کیا جاتا ہے۔ بھارت سلامتی کونسل میں اپنی سبکی کا بدلہ کشمیریوں کو تختہ مشق بنا کر لینا چاہتا ہے۔ کشمیریوں کی کشمیر کاز سے کمٹمنٹ اور ان کی طرف سے ظالم فورسز کو ناکوں چنے چبوانے پر بھی بھارت زخم خوردہ ہے۔ وہ کشمیریوں کو دہشت گرد اور پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت تباہ قرار دیتا ہے پاکستان کو اپنی دانست میں سبق سکھانے کیلئے اس نے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز کارروائیوں میں اضافہ کر دیا جبکہ مقبوضہ کشمیر میں چند دن میں دو لاکھ فوج بڑھا دی ہے۔ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ایمنسٹی نوٹس لینا پڑا اس کی طرف سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا گیا ہے۔ بااثر ممالک کو فوری طور پر کشمیریوں کے انسانی حقوق کی بحالی کیلئے آگے آنا ہو گا وہ آخری کشمیری کے بھارتی سفاک سپاہ کے ہاتھوں مارے جانے کا انتظار نہ کرے۔
بھارتی وزیر دفاع راجناتھ نے احمقانہ دھمکی دی ہے کہ بھارت ایٹمی ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کر سکتا ہے، ایٹمی ہتھیار پہلے کس نے استعمال کرنے ہیں یہ تو ان حالات پر منحصر ہے جن حالات میں ایسے ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کرنا درپیش ہو گا۔ بھارت بہرحال کسی بھی وقت چھوٹی یا بڑی جارحیت کر سکتا ہے جس کا پاکستان کی طرف سے یقینات 1965ء اور 27 فروری 2019ء کی طرز پر جواب دیا جائے گا۔ ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو حکومت کی طرف سے عسکری اور سیاسی پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ ایک تو وزیراعظم نے کشمیر کی صورتحال پر نظر رکھنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں اپوزیشن بھی شامل ہے۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس گزشتہ روز ہوا جس میں اپوزیشن کے حصہ لینے اور تجاویز دینے پر وزیر خارجہ نے شکریہ ادا کیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بعد مذکورہ کمیٹی کے اجلاس سے دنیا بھر میں یکجہتی کا پیغام گیا۔ سیاسی حوالے سے وزارت خارجہ میں کشمیر سیل قائم کیا گیا ہے جو دیگر امور کے علاوہ عالمی میڈیا کو ہمہ وقت ممکنہ ایمرجنسی میں صورتحال سے آگاہ رکھے گا۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے مؤقف ہی کی تائید سامنے آئی ہے۔ بھارت کا یہ مؤقف کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے فورم پر موجود نہیں رہا اور یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے، یہ موقف سلامتی کونسل نے مسترد کر دیا ہے۔ اس کی طرف سے یہ کہہ کر کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہو گا مذکورہ قراردادوں کو پھر سے زندہ کر دیا گیا ہے ان قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل پر پاکستان نے ہمیشہ زور دیا ہے۔ بھارت نے ان قراردادوں پر ماضی میں کبھی عمل کیا نہ اس کی طرف سے آئندہ عمل کرنے کی امید ہے۔ اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں کے مطابق عمل کیلئے وہی طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا جو عراق اور افغانستان میں کیا۔ بھارت کو قراردادوں پر عمل کیلئے ایک ڈیڈ لائن دی جائے۔ بھارت اس دوران کشمیر میں استصواب کرانے پر تیار نہیں ہوتا تو اس پر عالمی پابندیاں عائد کر دی جائیں۔ اس کے سوا مسئلہ کشمیر کا کوئی پرامن حل نہیں ہے۔ اب بھارت حالات کو جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے اب شاید مسئلہ کشمیر کا بھارت نے حل جنگ ہی چھوڑا ہے جس سے تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا اور اس تباہی سے عالمی امن بری طرح متاثر ہو گا۔ عالمی امن کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے اقوام متحدہ اور بااثر ممالک کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔