امریکہ، طالبان امن معاہدہ کی تیاری شروع
امریکہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے کی تیاری کا اشارہ دے دیا۔ گزشتہ روز صدر ٹرمپ کی زیر صدارت امریکہ کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کا اجلاس ہوا، جس میں افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی اور طالبان سے امن معاہدے پر غور کیا گیا، امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک دو د ن تک قطر جائیں گے۔
پاکستان کی جانی و مالی قربانیاں رنگ لائیں اور اُس کی کاوشوں کے باعث افغان مسئلہ حل کے مراحل میں داخل ہو گیا ہے۔ یہ اُسی پاکستان کی کوششوں سے ممکن ہو رہا ہے جس سے امریکہ اور صدر ٹرمپ آنکھیں بند کر کے ڈومور، طالبان کے ٹھکانے اور حکمت یار ٹھکانوں کو بند کرنے کے لغو قسم کے مطالبے کیا کرتے تھے۔ ان بے بنیاد الزامات کی آڑ میں پاکستان کی مالی امداد بلکہ وہ رقوم بھی جو نقصانات کے ازالے کے لیے واجب الادا تھیں روک لی گئیں۔ امن معاہدہ کے لیے دوحہ قطر میں اب تک فریقین کے مذاکرات کے 9 سے زائد دور ہو چکے ہیں۔ امریکہ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ طالبان محض اُجڈ یا گنوار ملا نہیں بلکہ انتہائی زیرک ہیں جو عالمی سپرپاور کے نمائندوں کو بات چیت میں پچھاڑ سکتے ہیں۔ اس لیے فریقین اور بالخصوص امریکہ کو معاہدہ کی شرائط میں چالبازی یا چار سو بیسی سے گریز کرنا ہو گا جو بھی شرائط ہوں صاف صاف واضح اور طالبان کے حقوق کی ضامن ہوں۔ معاہدوں پر دستخطوں کے لمحات بڑی احتیاط کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اب اگر خدانخواستہ مذاکرات ٹوٹ گئے تو بڑی خون ریزی ہو گی۔ پاکستان کی اول روز سے خواہش ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو، تاکہ افغان عوام بھی امن کی برکات سے مستفید ہو سکیں جو کہ بحیثیت انسان اُن کا حق ہے، اگر افغانستان میں امن قائم ہو جائے اور کشمیریوں کو حقِ خودارادیت مل جائے تو یہ پورا خطہ استحکام اور خوشحالی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام کی سب سے زیادہ خوشی پاکستان کو ہو گی جس کی ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے کہ ’’افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے‘‘