پیر ‘ 17؍ ذی الحج 1440ھ ‘ 19 ؍ اگست 2019 ء
ایٹمی حملے کی دھمکیاں دینے والے بھارت کے
عوام پاکستانی غباروں سے خوفزدہ
یہ عجب قوم ہے جو ایک طرف تو ایٹم بم چلانے خاکم بدہن پاکستان کو نیست و نابود کرنے کی گیدڑ بھبکی دیتی ہے۔ دوسری طرف اس کی بہادری کی یہ حالت ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی کبوتر، بلی ، بکری ، پتنگ یا غبارہ ہی بھارتی حدود میں داخل ہو جائے تو بھارت کے عام شہری تو کیا ساری فوج کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ یہ ہے انکی بہادری جس کی وہ ڈینگیں مارتے پھرتے ہیں۔ ایک بار تو ان سورمائوں نے پاکستان کی حدود سے بھارت میں داخل ہونیوالے کبوتر کو پکڑنے میں ساری سرحدی فورس لگا دی جب اسے پکڑا تو اس کا یوں جشن منایا گیا جیسے بھارتی فوج نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ میڈیا پر اس کبوتر کو پاکستان کا جیمز بانڈ 007 بنا کر پیش کیا گیا۔ مگر تمام تر کوششوں اور کئی ہفتوں کی بھرپور تفتیش کے بعد بھی اس بے چارے کبوتر سے کچھ برآمد نہ ہو سکا۔ بھارت کی بہترین خفیہ ایجنسیاں بھی اس کبوتر سے کچھ اگلوا نہ سکیں۔ بخدا اگر یہ کبوتر پاکستان کی پولیس کے ہتھے چڑھا ہوتا تو جاسوس ہونے کے اعتراف کے علاوہ یہ اعتراف بھی کر چکا ہوتا کہ وہ کبوتر نہیں ہاتھی ہے یا ہیلن آف ٹرائے کی کہانی والا لکڑی کا گھوڑا ہے جس میں فوجی چھپے ہوئے ہیں۔ اب گزشتہ روز پاکستان میں 15 اگست کو یوم سیاہ منایا گیا۔ بھارت کے سیاہ کرتوتوں سے پردہ اٹھانے کیساتھ ساتھ سیاہ غبارے فضا میں چھوڑے گئے۔ ان میں سے بہت سے غبارے پاکستانی فضائی حدود عبور کر کے بھارت تک جا پہنچے۔ بس پھر کیا تھا۔ لوگوں کے تو ڈر کے مارے حواس اڑا گئے اور خطرے کے الارم بجنے لگے اور سب کی دوڑیں لگ گئیں کہ کہیں ان غباروں میں بھی کوئی چیز نہ ہو۔ حالانکہ ان پر بھارت کیخلاف نعرے درج تھے۔ اب کہیں وہ ان غباروں کو ایٹمی تحقیقاتی مرکز میں ٹیسٹ کیلئے نہ بھیج دیں۔ جن کو دیکھتے ہی بہت سے سورمائوں کی دھوتیاں گیلی ہو گئیں ہیں…
٭٭٭٭٭
بنوں میں تاجروں کا پروفیشنل سیلز ٹیکس کیخلاف
انسداد پولیو مہم کے بائیکاٹ کا اعلان
یہ ہوتی ہے جہالت کی انتہا۔ آدمی گرتا کھوتے سے ہے اور غصہ کمہار پر نکالتا ہے۔ بھلا سیلز ٹیکس کا پولیو سے کیا لینا دینا جو تاجر دونوں ہاتھوں سے لاکھوں کماتے ہیں انہیں اس میں سے تھوڑا سا معمولی ٹیکس دیتے ہوئے کیوں تکلیف ہوتی ہے۔ اگر ایسی صورتحال ہے بھی تو حکومت سے بات کریں۔ حکومت سے اپنا مطالبہ منوائیں۔ یہ معصوم بچوں کے مستقبل سے ان کی صحت سے کھلواڑ کیوں۔ شاباش ان تاجروں پر جنہوں نے اس مذموم مہم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ بنوں ملک کے ان خطرناک زون میں شامل ہے جہاں پولیو کا مرض بڑی تیزی سے اپنی موجودگی ظاہر کر رہا ہے۔ پورا ملک اس وقت پولیو جیسے خطرناک دشمن سے نبردآزما ہے اور ہمارے یہ ’’کاکے منے عقل کے انے‘‘ قسم کے تاجر رہنما الٹی گنگا بہانے پر تلے ہوئے ہیں۔ خود یہ لوگ اپنے بچوں کو روپے پیسے کے بل بوتے پر کہیں سے بھی نجی کلینکس یا ہسپتالوں سے یہ قطرے خرید کر بھی پلا لیں گے تاکہ ان کے بچے صحت مند رہیں اور پولیو سے محفوظ۔ مگر غریب عوام کو ان کے بچوں کو حکومت کی طرف سے مفت انسداد پولیو قطرے پلانے سے روک رہے ہیں۔ بنوں کی انتظامیہ ایسے خودسر قسم کے افلاطونوں کے مزاج ٹھکانے پر لانے کے لیے آہنی عزم اور ہاتھ استعمال کرے۔ پہلے ہی پولیو کی وجہ سے عالمی سطح پر ہماری بدنامی ہو رہی ہے۔ ہمیں سفری پابندیوں کی د ھمکیاں مل رہی ہیں اور یہ ٹیکس چور قسم کے تاجر الٹا ہمیں اور زچ کر رہے ہیں۔ یہ غلط طرز عمل ہے۔ قانون اور حکومت کی رٹ چیلنج کرنے والوں کو ذرا اس کا مزہ بھی چکھایا جائے۔ ورنہ کل کو مسئلہ کسی کو درد سر کا ہو گا اور علاج نہ ہونے پر کارڈیالوجی بند کرنے کی دھمکیاں دیتا پھرے گا۔ ایسے عقل کے دشمنوں سے کوئی گلہ بھی کرے تو کیا کرے جو درخت بچانے کے لیے ا س کی جڑیں کاٹ رہے ہیں…
٭٭٭٭٭
فریال تالپور کی اڈیالہ جیل منتقلی کیخلاف
پیپلز پارٹی کے احتجاجی مظاہرے
جب حکومت نے سابق صدر آصف زرداری پر ’’ہتھ ہولا‘‘ نہیں رکھا۔ انہیں جیل کی سیر کروا دی تو۔ اسے فریال تالپور پر ترس کیسے آتا۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ ابھی سے یہ شور شرابا کیسا۔ اب تو آصف زرداری نے بھی حالات کے آگے لگتا ہے نواز شریف کی طرح ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ انہوں نے بھی جیل میں بی کلاس کی سہولتوں یعنی اے سی فریج، کتابیں ، اخبارات ، ٹی وی کی فراہمی کی درخواست عدالت میں دائر کر دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جیل میں ایسی سہولتیں اور مراعات کے حصول کیلئے بی اے پاس ہونا لازمی ہے۔ اب معلوم نہیں عدالت آصف زرداری جی کو ان سہولتوں کی فراہمی کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے یہ سہولت اُسے نہیں ملتی جو نان گریجوایٹ ہو۔ پیپلز پارٹی کے مظاہرین فریال تالپور کے حوالے سے پریشان ہیں کہ انہیں ہسپتال سے جیل منتقل کیا گیا ہے وہ بیمار ہیں۔ ابھی چند روز قبل کی ان کی نیب میں پیشی کی ویڈیو ز دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل بھلی چنگی ہیں۔ وکٹری کے نشان بنا کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دیتی اور کیمروں میں مسکراتی نظر آتی تھیں۔ اب ویسے بھی لوگوں کو سیاسی رہنمائوں کی گرفتاری کے بعد بیماریوں والی باتوں پر اعتبار نہیں آتا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ابھی ان کو رہا کر دیں تو یہ سب پھر ٹھیک ٹھاک فٹ فاٹ چلتے پھرے نظر آئینگے۔ نجانے یہ دوران حراست اچانک سیریس قسم کے بیمار کیوں ہو جاتے ہیں۔ حکومت یا نیب اور نہیں تو کم از کم ان بے چارے مظاہرین کی ہی آواز پر نرم دلی کا مظاہرہ کرے تو کسی کا بھلا ہو…
٭٭٭٭٭
مہنگائی پر قابو پانے کیلئے انتظامیہ فیلڈ
میں نکلے: وزیر اعلیٰ پنجاب
بے شک جب تک انتظامیہ خواب غفلت سے بیدار نہیں ہو گی ، لوگ مہنگائی کی بے رحم چکی میں پستے رہیں گے۔ گراں فروش اور ذخیرہ اندوز دونوں نے حکومت کو موم کی ناک اور حکومتی احکامات کو ہوا میں اڑانے کا جو وطیرہ بنا رکھا ہے اب اس کے خلاف سخت اقدامات کا وقت آ گیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ کی سخت گیری مشہور تھی۔ مگر وہ بھی ان پر قابو میں ناکام رہے۔ اب نرم خو اور نرم رو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ان بے رحم عناصر پر برق حاطف بن کر گریں تو شاید کوئی کرامت رونما ہو اور لوگوں کو ریلیف ملے۔ ورنہ حقیقت میں
اب جی حدود سو وزیاں سے گزر گیا
اچھا رہا وہی جو جوانی میں مر گیا
والی حالت غریبوں کو درپیش ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں، ضلعی انتظامیہ ساون بھادوں کے حبس آلود موسم میں اے سی والے کمروں کو چھوڑ کر ذرا گورے رنگ کو کالا کرنے والی دھوپ میں نکلیں تو انہیں پتہ چلے۔ یہی وقت ہے جاگنے کا اور جگانے کا۔ ذرا ان عوام دشمن عناصر کو بھی پتہ چلے کہ اب تبدیلی آ گئی ہے۔ وہ دن گزر گئے جب خالو خلیل فاختائیں اڑایا کرتے تھے۔ اب نظام کہن بدلنے کی تیاریاں ہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ لوگ بھارت سے حالت جنگ کا ہی احساس کرتے ہوئے غریبوں پر رزق تنگ کرنے کی بجائے رزق کے دروازے کھول دیں۔ ورنہ حکومت خود ان کے بھرے گودام کھلوانے کا بندوبست کرے۔