گذشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر اور بھارتی جارحیت کو جس طرح اجاگر کیا گیا ، وہ یقینا قابلِ تحسین ہے، البتہ دیکھنایہ ہے کہ بھارت اس بابت اپنی دیرینہ مذموم روش سے پیچھے ہٹے گا یا نہیں۔ مبصرین کے مطابق بھارتی حکمرانوں کی سیاہ کاریوں کے منطقی نتیجے کے طور پر لگتا یہ ہے کہ ہمیشہ کی سیاہی بھارت کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے کیوں کہ کشمیری اپنے خون سے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیںتبھی تو محبوبہ مفتی نے کہا کہ ’’ 1947 میں ہم میں سے کچھ لوگوں نے دو قومی نظریے کا ساتھ نہ دے کر ایسی فاش غلطی کی ہے جس کا خمیازہ نجانے آنے والی کتنی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا‘‘۔ مقبوضہ خطہ کے دیگر تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد نے بھی لگ بھگ انہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق افراد کی غلطیوں سے تو شاید کسی حد تک صرف نظر کیا جا سکتا ہے مگر قوموں کی جانب سے اس نوع کی لغزشیں سنگین حالات کا باعث بنتی ہیں بقول شاعر ؎
یہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
مبصرین کی رائے ہے کہ ہندوستان 15 اگست 1947 کووجود میں آیا تو دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کو توقع تھی کہ یہ ملک شاید آگے چل کر محکوم قوموں کے علم بردار کے طور پر کام کرے گا کیونکہ ہندو قوم صدیوں بڑی حد تک محکوم رہی ہے اس وجہ سے اس کے بالا دست طبقات کو بخوبی احساس ہو گا کہ غلام قو میں کس حد تک ذہنی ابتری کا شکار ہوتی ہیں مگر بھارتی حکمرانوں نے اپنی آزادی کے بعد اپنی روش سے ثابت کر دیا کہ ان کی بابت ابتداء میں جن خوش گمانیوں کا اظہار کیا گیا وہ سراسر خوش فہمی ہیں ۔ تبھی تو دہلی کے حکمران سوچے سمجھے ڈھنگ سے اپنی اقلیتوں کیخلا ف ریاستی دہشتگردی کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ محض سفارتی ،سیاسی یا مذہبی محاذ پر ہی نہیں چل رہا بلکہ زندگی کا کوئی شعبہ اس منفی روش سے محفوظ نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک پاکستان کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کی۔ قائدنے بجا فرمایا کہ ’’درحقیقت پاکستان تو اسی روز وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے ، ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ ایک جداگانہ قوم کا حصہ بن گیا اور ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی‘‘۔ دو قومی نظریہ کیا ہے؟ اسے سمجھنے کیلئے کسی افلاطونی ذہنیت یا ارسطو ہونا ضروری نہیں بلکہ یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندو اور مسلمان ہزاروں سال ایک ساتھ رہنے کے باوجود مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ رہے ۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی 94.9 فیصد اور شہری علاقوں میں 61.1 فیصد تعداد خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ دیہی علاقوں کی 54.6 فیصد اور شہری علاقوں کی 60 فیصد نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔دیہی علاقوں میں مسلم آبادی کے 0.8 اور شہری علاقوں میں 3.1 مسلم گریجوئیٹ ہیں اور 1.2 پوسٹ گریجوئیٹ ہیں۔
اگرچہ مغربی بنگال کی کل آبادی کا 27 فیصد مسلمان ہیں۔ مگر سرکاری نوکریوں میں یہ شرح 4.2 % ہے۔ آسام میں یہ شرح 40 % مگر نوکریاں 11.2% ،کیرالہ میں 20% آبادی کے پاس 10.4 فیصد سرکاری نوکری ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی فوج اور خفیہ اداروں نے اپنے یہاں سے معلومات کے حصول کی اجازت ہی نہیں دی تھی مگر عام رائے یہ ہے کہ ان اداروں میں مسلم نمائندگی کی شرح کسی طور بھی 1.75 فیصد سے زائد نہیں۔ اس تصویر کا یہ رخ اور بھی بھیانک ہے کہ مہاراشٹر میں مسلمان کل آبادی کا 10.6 فیصد ہیں مگر یہاں کی جیلوں میں موجود قیدیوں کا 32.4 فیصد حصہ مسلمان ہے۔دہلی کی آبادی میں مسلمان 11.7 فیصد مگر جیلوں میں کل قیدیوں کا 27.9 فیصد،صوبہ گجرات کی جیلوں میں کل بند افراد کا 25.1 فیصد مسلمان ہے جبکہ آبادی میں یہ تناسب 9.1 فیصد ہے،کرناٹک کی جیلوں میں 17.5 فیصد مسلمان بند ہیں جبکہ آبادی میں یہ تناسب 12.23 فیصد ہے،مہاراشٹر کی جیلوں میں ایک برس سے زائد مدت سے قید افراد میں 40.6 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
بھارتی مسلمانوں کو اس عجیب صورتحال سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے ہم نوا کہتے ہیں کانگرس نے مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے جبکہ کانگرس سمیت تمام سیکولر پارٹیاں، انڈین آرمی،خفیہ ادارے،پولیس ،میڈیا اور عدلیہ کا بڑا حصہ بھارت کے ساتھ ان کی وفاداری کو مشکوک سمجھتا ہے ۔بنکوں سے قرضہ ملنا تو دور کی بات اپنے آبائی علاقوں کے باہر کرائے پر دکان یا مکان دیا جانا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔
ایسے میں وطنِ عزیز کے سبھی حلقوں کو بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار کو سامنے رکھنا چاہیے اور خود احتسابی اور خود مذمتی میں حائل بہ ظاہر معمولی لیکن در حقیقت انتہائی اہم فرق ملحوظ رکھا جائے کہ با شعور اور زندہ قوموں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ اس بابت اصل ذمہ داری مقتدر طبقات (بھلے ہی وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں)، سول سوسائٹی اور میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں خوف و ہراس کی شدید لہر پائی جاتی ہے۔ یوں تو یہ سلسلہ گذشتہ 72 سال سے ہی جاری ہے مگر پچھلے دو دنوں کے دوران مقبوضہ وادی میں صورتحال نے جو دھماکہ خیز شکل اختیار کی ہے، وہ اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آئی۔ جن شہریوں کے ہاں شادیوں کی تاریخیں طے تھیں، انھیں منسوخ کیا جا چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر دہلی سرکار کا مقبوضہ کشمیر کے ضمن میں جو حکم نامہ وائرل ہوا اس میں ہدایات درج تھیں کہ اپنے گھروں میں راشن جمع کر رکھیں اور پیسے پاس رکھیں۔ پیٹرول پمپ پر شہریوں کی طویل قطاریں اور راشن کی دکانوں کے باہر ایک جم غفیر جمع ہے، کیونکہ یہ حقیقی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مقبوضہ ریاست میں لمبے عرصے کیلئے زندگی معطل ہو کر رہ جائے گی۔ سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ سمیت ہر خاص و عام کی زبان پر یہ الفاظ ہیں ’’ 15 اگست تک یا اس کے فوراً بعد کچھ ہونے والا ہے‘‘۔ 2 اگست کو محبوبہ مفتی نے ساڑھے 8 بجے رات ہنگامی پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ’’ میں نے ایسا خوفناک ماحول اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، حالانکہ اسلام میں ہاتھ جوڑنا منع ہے‘ لیکن میں ہاتھ جوڑتی ہوں کہ ایسا کچھ نہ کیا جائے جس سے حالات ایسے بگڑیں کہ پھر سنور نہ پائیں، مودی جی آپ تو کشمیریوں کے دل جیتنے کی بات کرتے ہیں پھر یہ کیا کیا جا رہا ہے، ہر فرد ہراس میں مبتلا ہے‘‘۔
بھارت کی 15 ویں کور کے کمانڈر ڈِھلوں نے سرینگر میں ایک روز قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 83 فیصد کشمیری لڑکے جو پتھر بازی کرتے ہیں وہ ’’دہشتگرد‘‘ بن جاتے ہیں، حکومت کیخلاف ہتھیار اٹھانے والا 10 دنوں کے اندر مار دیا جاتا ہے ‘‘۔ یاد رہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں امر ناتھ یاترا کرنے والوں سمیت تمام سیاحوں کو فی الفور وادی سے نکل جانے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، ہمیشہ سے RSS اور بی جے پی کا دیرینہ ایجنڈا رہا ہے۔ مگر مودی سرکاری تہیہ کر چکی ہے کہ 15 اگست سے قبل مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا جائے۔ اس لئے وہاں 35 ہزار فوجی بھجوائے جا چکے ہیں اور ان کی تعداد کو مزید بڑھایا جائے گا، تا کہ آرٹیکل 35 A پر حملے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں اٹھنے والی مزاحمت کی شدید لہر پر قابو پانے کی سعی کی جا سکے۔ ممکن ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات کی سنگینی اور عوام کے غم و غصہ کو دیکھتے ہوئے دہلی کے حکمران اسے وقتی طور پر ملتوی کر دیں مگر بہرحال یہ ان کے ایجنڈے پر سرفہرست ہے اور وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اسی وجہ سے 15 اگست سے قبل مقبوضہ کشمیر میں کسی خوفناک طوفان کی آمد محسوس کی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دہلی کے حکمرانوں نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ انہیں دوستانہ انداز میں کہی بات سمجھ نہیں آتی۔ بدقسمتی سے بعض افراد اور گروہوں کی نفسیات ہی کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ وہ محض طاقت کی زبان سمجھتے ہیں اور ولیل اور منطق کو سامنے والے کی کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں۔ ویسے تو یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ زیادہ تر لوگ قوت کو ہی سب سے بڑی دلیل قرار دیتے ہیں مگر اس ضمن میں ہندوستان کی تاریخ پر ذرا سی بھی نگاہ ڈالیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ وہاں کے حکمران طبقات ہمیشہ سے ہی قوت کے پجاری رہے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ہر اُس شے کی جو نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہے، پوجا شروع کر دیتے ہیں مثلاً آگ ، سانپ اور مختلف درندے وغیرہ، شاید اسی وجہ سے ماضی میں سینکڑوں برس بھارت دوسری قوموں کے زیر نگیں رہا ہے۔
مگر اب جبکہ 72 برسوں سے اسے آزادی میسر آئی ہے تو وہ اپنے چھوٹے ہمسایوں کو ڈرا دھمکا کر اور پاکستان اور چین کیخلاف بھی توسیع پسندانہ عزائم اختیار کر کے گویا اپنی صدیوں کی غلامانہ محرومیوں کی تسکین کا خواہش مند ہے۔ مگر بھارت کے بالا دست طبقات اس تلخ حقیقت سے جانے کیوں صرف نظر کر رہے ہیں کہ اس روش کے نتائج کبھی بھی کسی کے حق میں اچھے نہیں ہوتے۔ اس تناظر میں موثر عالمی قوتیں بھی اپنی سطحی اور وقتی مصلحتوں کی بنا پر بھارت کی جرمانہ روش سے چشم پوشی کرتے ہوئے غالباً اجتماعی انسانی غلطیوں کی مرتکب ہو رہی ہے، اسی وجہ سے مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد خود بھارت کے اندر بھی بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور ہمسایہ ممالک کیساتھ بھی بھارتی تعلقات کسی طور قابل رشک نہیں۔
اس تناظر میں غالباً ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جانب وطن عزیز کی سول سوسائٹی سمیت تمام طبقات یک زبان ہو کر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کی جانب اپنی تمام تر صلاحتیں صرف کریں، اس بابت محض یورپ اور امریکہ پر تکیہ نہ کیا جائے بلکہ خود بھارت کے اعتدال پسند حلقوں تک اپنی بات تسلسل اور مضبوط ڈھنگ سے پہنچائی جائے، تبھی توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ معاملہ منصفانہ ڈھنگ سے اپنے حل کی جانب بڑھ سکے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024