دونوں عیدوں کا تعلق قربانی سے ہے۔ آزادی بھی قربانی دیکر حاصل ہوئی اور عیدالاضحی کا تو موقع ہی ان گنت قربانیوں کا ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ 14 اگست 1947ء سے آج تک قربانیوں سے بھری ہے۔ بھارت سے جنگوں میں قربانیاں دیں۔ دہشت گردی نے ایک دو نہیں‘ ہزاروں قربانیاں لیں اور آج بھی عوام مہنگائی کے ہاتھوں مالی طور پر قربان ہورہے ہیں۔ جانوروں اور انسانوں کی قربانیاں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ عوام ڈالر اور روپے کی جنگ میں قربان ہورہے ہیں۔ 22 کروڑ عوام بالواسطہ ٹیکسوں کی قربانی دینے پر مجبورہیں۔ پھر بھی ریاست کو شکوہ ہے کہ ٹیکس نیٹ میں مچھلیاں اور چڑیاں بہت کم ہیں۔ 18 اگست 2018ء کو اقتدار کے پہلے روز عمرانی حکومت کو 28 ارب ڈالر کی ضرورت تھی۔ اس میں 20 ارب ڈالر کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ اور 8 ارب ڈالر قرضوں کی واپسی کیلئے درکار تھے۔ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 20 سے کم ہوکر 13 ارب ڈالر ہے۔ آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالر کا لون پیکیج منظور کیا ہے۔ حکومت کیلئے دو پریشان کن باتیں ہیں۔ پاور سیکٹر اور سرکاری اداروں کا خسارہ۔ حکومت ان سفید ہاتھیوں کی پرورش کرنے پر مجبور ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کی کارکردگی گرتی جا رہی ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا حجم 100 ارب ڈالر سے سکڑ کر 40 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ بینکوں کی ایک سال کیلئے شرح سود 14.33 فیصد ہے۔ ایسے میں فیکٹریاں کیا چلیں گی۔ الٹامزدوروںکی چھانٹی ہوگی۔ عام شہری کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور ہر گھر میں بیروزگاری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ جیسے ہر گھر میں پڑھی لکھی خوش شکل بچیاں روزگار اور رشتوں کی منتظر ہیں۔ 15 ہزار ماہانہ تنخواہ دار شخص کے گھر کا بجلی کا بل 6 ہزار تک آرہا ہے۔ پی ٹی آئی کی مہربانی کہ اس نے بڑے بڑوں پر ہاتھ ڈالا‘ لیکن خوف خدا سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو نہیں چھیڑا جس کی بدولت 57 لاکھ گھرانوں کو 5 ہزار 500 روپے سہ ماہی مدد مل رہی ہے۔ ووکیشنل ٹریننگ پروگرام پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریسٹ ہائوسوں اور گورنر ہائوسوں کے دروازے رات دن کھلے رہیں۔ تب بھی غریبوں کی قسمت نہیں بدل سکتے۔ ہسپتالوں پر پارکنگ اور مزارات پر جوتوں کی رکھوالی کے ٹھیکے حکومتوں کی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔کونسی چیز ایسی ہے جس کی حکومت مفت فراہمی کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ سرکاری پیداواری ادارے سالانہ 1.1 کھرب روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ حکومت نالائق اولاد کی طرح انہیں گھرسے تو نہیں نکال سکتی۔ ان اداروں کے مستقبل کیلئے کوئی روڈ میپ نہیں۔ پاور سیکٹر سے یومیہ دو ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ بجلی اور گیس چوری کوکوئی مائی کا لال نہیں روک سکا۔ آخر چوروں کو بھی تو پیٹ لگا ہے۔ چور چور کا ساتھی ہوتا ہے۔ پہلی سالگرہ تک توحکومت گول ہی نہ سیٹ کر سکی۔ پانی کی آنے والی قلت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ استعمال کیلئے سالانہ فی کس 908 کیوبک میٹر پانی رہ گیا ہے۔ 2025ء میں یہ دستیابی مزید گر کر فی کس 800 کیوبک میٹر کی سطح پر آجائے گی۔ بڑے ڈیموں میں پانی کی گنجائش 4.965 ملین ایکڑ فٹ کم ہو چکی ہے۔ 2025ء تک اس میں مزید 0.75 ملین ایکڑ فٹ کمی آجائے گی جس سے دریائوں کا لاکھوں کیوبک میٹر پانی سمندر میں چلا جائے گا۔ بھارت کا موڈ سبھی کو دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان کی مشرقی سرحد پر بھارتی فوجی تیاریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تمام فوجی اڈوں پر ہائی الرٹ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں دفعہ 144 اور کرفیو نافذ ہے۔ جلسے جلوسوں‘ ریلیوں پر پابندی ہے۔ انٹرنیٹ‘ ٹی وی نشریات معطل‘ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ افغان مذاکرات خراب کرنے کی بھارتی کوشش جاری ہے۔ بھارت جعلی فوجی آپریشن کر سکتا ہے۔ کسی پُرخطر کارروائی سے دونوں ایٹمی ممالک میں آگ بھڑک سکتی ہے۔ بھارت ہماری کشمیر کمیٹی توکیا‘ سلامتی کونسل کو بھی کچھ نہیں سمجھتا۔ سلامتی کونسل نے نہتے کشمیریوں پر کلسٹر بموں کے استعمال کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ بھارت کشمیر پر ثالثی مانتا ہے نہ مذاکرات کیلئے تیار ہے او آئی سی اور عالمی برادری نے نہ پہلے کچھ کیا نہ اب کرے گی۔ الٹا اقوام متحدہ میں تحمل سے کام لینے کی تلقین کرتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاست دہشت گردی اوربگڑتی صورتحال امریکہ کو دکھائی کیوں نہیں دیتی۔ خالی اخلاقی اور سفارتی حمایت سے مظلوم کشمیریوں کو حق خودارادیت کیسے مل سکتا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے۔ افغان بریک تھرو ہو گیا تو دنیا کا فوکس کشمیر بن جائے گا۔ نئی دہلی کوخفیہ اسرائیلی تعاون بھی حاصل ہے۔ بھارتی رویہ عالمی امن کیلئے خطرہ ہے۔ وادی میں فوج کی تعداد میں بھاری اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اضافی فوج کی تعداد 38 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ غیرملکی سیاح مقبوضہ وادی کا رخ نہیں کر رہے۔ بھارتی انسانی تاریخ کی بدترین نسل کشی کرنیوالے ہیں۔ کشمیریوں کا جرم آزادی سے محبت ہے۔ وہ پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ بھارت کے جنگی جنون کو کون لگام دیگا۔ امریکہ اور اسرائیل مودی کے جگری یار ہیں۔ وہ ہمیں لالی پاپ تو دے سکتے ہیں‘ لیکن بھارت کیخلاف نہیں چل سکتے۔ بھارت نے کشمیر ہڑپ کر لیا۔ خصوصی حیثیت‘ الگ پرچم اور آئین کا اختیار ختم مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے اقدام مودی نے بھارتی آئین کا قتل کیا۔ بھارتی اقدام سے یو این قرارداد‘ شملہ معاہدہ بھی ختم‘ مزید 70 ہزار فوج مقبوضہ کشمیر بھیج دی گئی۔ مودی نے خطے کو تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ خارجہ پالیسی محاذ پر کڑا امتحان شروع ہو گیا۔ وادی کا ریاستی درجہ ختم۔ مرکزی علاقہ قرار۔ غیرکشمیری جائیداد خرید‘ مستقل رہائش رکھ سکیں گے۔ مودی کا کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں بدلنے کی سازش۔ آرٹیکل 370‘ جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کا ضامن تھا۔ ریاست کو اپنا آئین بنانے‘ الگ پرچم رکھنے‘ آئین ساز اسمبلی کا حق بھی دیا گیا تھا۔ کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ آرٹیکل کے خاتمے سے وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائینگے۔ دونوں ممالک مسئلے پر تین جنگیں لڑ چکے ،2003ء میں کنٹرول لائن کو سرحد تسلیم کیا گیا کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ عالمی قراردادوں کی نفی ہے۔ اسرائیل ماڈل نافذ کرنے سے کیا حریت پسندوں کے حوصلے پست ہو سکیں گے؟ مقبوضہ کشمیر ایک مقبوضہ علاقہ ہے جہاں بھارت آٹھ لاکھ فوج کیساتھ پرامن کشمیریوں کیساتھ جنگ لڑ رہا ہے۔ محبوبہ مفتی کے نزدیک بھارت سے الحاق اور دو قومی نظریے کی مخالفت کا فیصلہ غلط ثابت ہو گیا۔ پاکستان تمام ممکنہ راستے اختیار کریگا۔
پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ کشمیر کیلئے ہر حد تک جائینگے شہباز شریف نے ٹھیک کہا مذمتی قراردادیں نہیں بھارتی ہاتھ کاٹ ڈالیں۔ چین کے نزدیک بھارتی اقدام اس کی خود مختاری کیلئے خطرہ ہے۔ قانون سازی کے باوجود مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ ہی رہیگا۔ نریندر مودی نے پاکستان کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ہندوستان نے جو کرنا تھا کر دیا ہم کیا جواب دے سکتے ہیں؟ پاکستان کو کچھ تو کرنا چاہئے، اب حزب اللہ اور حزب الشیطان میں مقابلہ ضروری ہے، ہم وہ نہیں کر پا رہے جو موجودہ حالات ہم اور دینی حمیت ہم سے تقاضا کرتی ہے۔
مودی ہٹلر کے راستے پر گامزن ہے ، بھارت کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اقدام تاریخی فاش غلطی ہے، انڈیا نے آخری کارڈ کھیل لیا قوی امکانات ہیں تحریک آزادی زور پکڑیگی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کشمیر کی حیثیت تبدیل نہ کی جائے۔ بھارت نے آج تک کونسے سیکرٹری جنرل کی بات پر کان دھرا اور اقوام متحدہ کے کون سے چارٹر اور سلامتی کونسل کی کون سی قراردادوں کو خاطر میں لایا ہے۔ کیا دنیا میں ریلیوں، مذمتوں اظہار تشویش کرنے سے کچھ ہوا ہے ۔ سفیروں کو واپس بلانے تجارت معطل کرنے سمجھوتہ ایکسپریس بند کرنے ، عالمی رائے عامہ کا بھارت کو تنقید کا نشانہ بنانے سے ہٹلر اپنی ضد ہٹ دھرمی سے کب باز آئیگا۔ اس نے تو فخر سے کہا تھا کہ میں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اپنی جوانی کا حصہ ڈالا تھا۔ وہ مسلمانوں ، پاکستان ، نظریہ پاکستان اسلام کا ازلی ابدی دشمن ہے۔ عالمی سطح پر ہنود و یہود سے مودی کی یاریاں ہم سے زیادہ قوی اور مضبوط ہیں۔ دنیا والوں کی یہ منافقت ہوتی ہے کہ ہمیں تحمل سے کام لینے کی تلقین کرتے ہیں۔ کرفیو ختم کرنے کی بات کوئی نہیں کرتا۔ کشمیر پر ہر دور حکومت کے پارلیمنٹ کے اجلاس میں متفقہ مذمتی قراردادیں درجنوں بار منظور ہوں 5 فروری کو یوم کشمیر مناتے کئی عشرے گزر گئے ، ریلیوں کا تو حد و شمار نہیں۔ کُل عالم میں اس وقت چین کشمیر پر پاکستان کا حامی د کھائی دے رہا ہے ۔ چین کے نزدیک بھارتی اقدامات یکطرفہ امن کیلئے خطرہ ہیں ، مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دوطرفہ معاہدوں کے تحت حل ہونا چاہئے۔ پاکستان اپنے موقف اور رائے عامہ ہموار کرنے کے محاذ پر ڈٹا رہے تو بہتر ہے ورنہ عالمی منافقین ہمیں مذاکرات کی میز پر دھکیلنے اور مسئلہ کو تادیر التوا میں ڈالنے کی پرانی کوشش کا اعادہ کریں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024