ماضی قریب میں آئل مارکیٹنگ کمپنیاں کس کس طرح سے کمائی کرتی رہی ہیں یہ جان کر ہر پاکستانی حیرت زدہ ہو جائے گا۔ یہ معاملہ مجھے اس شعبے سے تعلق رکھنے والے انتہائی قابل اعتماد شخص نے بتایا ہے اس میں مجھے صداقت نظر آئی تو عوام کے گوش گزار کررہا ہوں۔ پہلے جب آئل کا شپ آتا تھا تو نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے لوگ کسٹم سے مل کر اسے غیر معیاری قرار دلواتے تھے اور وہ شپ Rejectکردیا جاتا تھا جس کے بعد وہ شپ واپس دبئی جاکر لنگرانداز ہوتا تھا اور نئی پارٹی کی خریداری تک وہیں رکا رہتا تھا۔ شپ کے دبئی پہنچنے کے کچھ دنوں بعد اسی نجی آئل مارکیٹنگ کمپنی کے لوگ آئل کے مالک کو یہ کہہ کر سودا کرتے تھے کہ یہ تو غیر معیاری آئل ہے آپ ہمیں اونے پونے فروخت کردیں اور مالک بھی مجبوری کی حالت میں عالمی مارکیٹ سے بہت کم میں یہ آئل شپ اس نجی آئل مارکیٹنگ کمپنی کو فروخت کردیتا تھا جس کے بعد وہی شپ دوبارہ پاکستان آتا تھا تو یہ لوگ کسٹم سے معیاری قرار دلواکر خالی کرلیتے تھے۔ اس تمام معاملے میں ان نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو بھاری بچت ہوتی تھی۔ اگر تیل غیر معیاری تھا تو پھر پاکستان میں ماضی میں غیر معیاری تیل فروخت ہوتا رہا اور کسی حد تک یہی بات درست ہے کہ نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیز نے بھاری منافع کمایا اور غیر معیاری آئل میل ملاپ کرکے یہاں امپورٹ کرکے فروخت ہوتا رہا۔ اس بات کا ثبوت یہ بھی ہے کہ ماضی میں انہی نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے شیئرز کی قیمتیں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی رہیں اور لوگوں کے سامنے یہ پہلو تھا کہ مستقبل میں یہ آئل مارکیٹنگ کمپنی لوگوں کو بھاری منافع دے گی لیکن جعل سازی زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی اور یہی ہوا کہ اب ان آئل مارکیٹنگ کمپنیز کا شیئر کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔نیب اور حکومت کو اگر آئل مارکیٹنگ کمپنیز کا احتساب کرنا ہے تو کسٹم کے افسروں سے لیکر آئل شپ کلیئر کرنیوالے لوگوں سے پوچھ گچھ کی جائے تو سارا معاملہ کھل کر سامنے آجائے گا۔
ماضی میں آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے لائسنس بغیر پروفیشنل جانچ پڑتال کے بانٹے گئے اور سینکڑوں ایسی آئل مارکیٹنگ کمپنیز بنادی گئیں جن کا پہلے پیٹرولیم انڈسٹری سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں رہا اور آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے لائسنس لینے والے لوگوں کا مشن کوئی پاکستان میں معیار اور مقدار کا عالمی ریکارڈ قائم کرکے عوام کی گاڑیوں اور مشینری کا تحفظ کرنا نہیں تھا ان کا مشن صرف اور صرف دولت کمانا اور ٹیکس چوری کرنا تھا اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ نئی آنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے پاس نہ تو آئل اسٹوریج کے اپنے ڈپو تھے اور نہ ہی کوالٹی کنٹرول کا منظم نظام۔ ایک دفتر کھول کر بیٹھ جانے والوں نے انتہائی چالاکی اور مہارت سے دولت کمائی اور عوام کو انتہائی غیر معیاری پیٹرولیم مصنوعات سرکاری ریٹ پر فروخت کی گئیں اور ٹیکس چوری کے بھی نت نئے طریقے متعارف کرائے گئے جس سے نہ تو ملک اور عوام کو کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی حکومتی ریونیو میں کوئی قابل قدر اضافہ ہوا بلکہ ان لوگوں کی ذاتی جائیدادوں اور دولت میں ہی اضافہ ہوا۔
جنرل مشرف کے پورے دور حکومت میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ پیٹرولیم قیمتوں میں کمی زیادتی کا پہلے میڈیا سے علم ہوجاتا کہ اس بار کمی یا زیادتی ہوگی؟ یا کس قدر کمی زیادتی ہوسکتی ہے؟ بعد کی حکومتوں میں ایسا ہی ہورہا ہے کہ میڈیا میں پہلے ہی علم ہوجاتا ہے کہ آئندہ ماہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کس قدر کمی یا زیادتی ہونے جارہی ہے۔ یہ ایسا منظم مافیا ہے جو قیمتوں میں اضافے سے پہلے پیٹرولیم مصنوعات ڈمپ کرلیتا ہے اور مہینے کی 25تاریخ کے بعد رقم لیکر بھی پیٹرولیم مصنوعات نہیں دی جاتیں اور پیٹرول پمپ ڈرائی ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں شاید ایک آدھ پیٹرولیم کمپنی ہے جو ہر صورت پیٹرولیم مصنوعات کی بروقت سپلائی کو نہ صرف یقینی بناتی ہے بلکہ معیار اور مقدار پر بھی کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی ڈمپنگ سے ہی ایک ایک ماہ میں نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے کروڑوں اربوں روپے کمائے ہیں اور قیمتوں میں کمی زیادتی کی خبریں اب بھی پہلے آجاتی ہیں اور اس کمائی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
فرنس آئل سپلائی میں سرکاری کرائے کے ریٹ سے بہت ہی کم کرائے دیکر آئل ٹینکرز کا استحصال کئی سال سے جاری ہے اور نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیز نے مخصوص مافیا کی آئی پی پیز سے ملکر ایک نئے نام کی کمپنی بنارکھی ہے جوٹیکسٹائل ملز والوں کی آئی پی پیز کا فرنس سپلائی نجی اور آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے کنٹریکٹرز کے ذریعے کراتی ہے اور فی ٹن فرنس سپلائی میں 1500-2000روپے فی ٹن کم کرایہ دیکر ماہانہ اربوں روپے کرایوں میں سے کمائے جاتے ہیں جس میں سے نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیز اور مخصوص آئی پی پیز کو رقوم ملتی ہیں اور ان کے ناجائز اور غیر قانونی منافع میں زبردست اضافہ ہوتا ہے لیکن یہ تمام معاملہ اس طرح سے چلایا جاتا ہے کہ حکومت پاکستان کو کوئی ٹیکس بھی نہ دینا پڑے اور آئل ٹینکرز مالکان بھی موثر احتجاج نہ کرسکیں۔
حکومت ہر ماہ جن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کرتی ہے اس کے معیار اور مقدار کی 100% ضمانت ہونی چاہئے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور ملک بھر میں صرف اس معاملے پر ایک کمپنی کا مکمل Focusہے اس کے علاوہ کسی بھی آئل مارکیٹنگ کمپنی کے پیٹرول پمپ کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ معیار اور مقدار کے معاملے میں وہ درست ہوں اور عوام سے ایک لیٹر کے پیسے لیکر کتنا پیٹرول دیا جاتا ہے اور جو پیٹرول دیا جاتا ہے اس کا معیار کیسا ہے؟
اس معاملے میں حکومت اوگرا کے تحت چھاپہ مار ٹیموں کی تعداد میں بھاری اضافہ کرکے معیار اور مقدار کی جانچ کے لئے ایسا نظام بنائے کہ ہر پیٹرول پمپ پر مہینے میں ایک بار لازمی بغیر اطلاع کے اچانک ٹیم چھاپہ مارے اور اگر معیار و مقدار میں کوتاہی ہو یا خصوصاً مہینے کی آخری تاریخ پر ایک پیٹرول پمپ پر پیٹرول و ڈیزل نہیں ہے تو پیٹرول پمپ کو جرمانہ کرنے کے بجائے Sealکرکے اس کا لائسنس فوری طور پر کینسل ہونا چاہئے اور متعلقہ آئل مارکیٹنگ کمپنی سے بھی سخت بازپرس ہونی چاہئے کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کے معاملے میں ملک بھر میں صرف لوٹ مار ہی کی جاتی ہے۔ اصل انجن آئل مل جانا بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور ملک بھر میں کمپنیوں کی اصلی پیکنگ میں جعلی انجن آئل فروخت کیا جارہا ہے۔
اوگرا کو چاہئے کہ جن جن آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو لائسنس دیئے گئے ہیں ان کا مکمل آڈٹ کرے اور درج بالا تمام پہلوؤں سے جانچ پڑتال ہونی چاہئے اور جو کمپنی بھی معیار و مقدار کے بجائے صرف دولت کمانے کے مشن پر گامزن ہے اس کا لائسنس فوری طور پر منسوخ ہونا چاہئے۔اس معاملے میں اگر نیب دلچسپی لے تو فراڈ کرنے والی نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے کالے کرتوت کھل کر سامنے آجائیں گے کہ انہوں نے اس وطن عزیز میں کس قدر لوٹ مار کی ہے اور اس کے بدلے ٹیکس کتنا دیا ہے؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024