زمین بُرد ہوتی ہوئی ریلوے لائنیں
مکرمی! پاکستان کے بعض سابقہ حکمرانوں نے ملکی وسائل اور قومی املاک کی خرد بُرد اور کئی محکموں اور اداروں کا نظام تہس نہس کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی، ان میں ریلوے کا محکمہ بھی ان کی دست بُرد کی زد میں آیا۔ سٹیل کی صنعت سے وابستہ ایک حکمران خاندان کی طرف سے چوری چھپے ریلوے کی غیر فعال پٹڑیاں اُکھاڑ کر اپنی فونڈریوں کی خوراک بنانے کے قصے تو زبان زد خاص و عام ہیں۔ (واضح رہے کہ ریل کی پٹڑیوں میں استعمال ہونے والا سٹیل، دنیا کے اعلیٰ ترین سٹیل میں شمار ہوتا ہے) اسی خاندان کے دورِ اقتدار میں دور رس گھمبیرتا کا حامل یہ سیاہ کارنامہ بھی 1منصۂِ شہود پر آیا کہ ریلوے لائنوں کے د ونوں جانب کی زمینیں لوگوں کو کاشتکاری کیلئے پٹے پر دینی شروع کر د یں، ان پٹوں کا استحقاق ان لوگوں کے حصہ میں آتا جو حکامِ بالا کی خوشنودی کے معیار پر پورا اترتے ہوں، اس پٹہ داری کا یہ تشویشناک نتیجہ سامنے آ رہا ہے کہ ریلوے پٹڑیوں کے دو رویہ آبپاشی سے پٹڑیوں کے زیریں زمین مسلسل نمناک اور سیم زدہ ہو رہی ہے، اور ٹرینوں کی آمدورفت سے پٹڑیاں بتدریج زمین میں دھنسنے کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ اگر ریلوے لائنوں کے دو رویہ آبپاشی کا یہ مذموم عمل روکا نہ گیا تو اس عظیم اور بے بدل قومی دولت کی بربادی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ امید واثق ہے کہ فعال وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اس اہم قومی معاملہ کو خصوصی توجہ اور سنجیدگی سے لیں گے اور اس ضمن میں ماتحت افسران کی ’’سب خیریت ہے‘‘ کی رپوٹوں پر صاد کرنے کی بجائے ذاتی دلچسپی سے حالات و حقائق کا بہ نظرِ غائر جائزہ لے کر ایک عظیم قومی ورثہ کے ضیاع کو روکیں گے۔ (محمد شفیع اویسی: فیضانِ ہادی پریس، کالج روڈ بورے والا)