مشتاق عباسی ‘الوداع
ہمارے سینئر کولیگ ‘ محنتی اور انسان دوست مشتاق احمد عباسی بھی چل بسے‘ جمعرات اور جمعۃ المبارک کی درمیانی شب وہ دارالبقاء سے دارالافناء منتقل ہوئے۔ آج ان کی جدائی کا تیسرا روز ہے اﷲ پاک اپنے محبوب رسول محتشمؐ کے صدقے انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے‘ ان کی کوتاہیاں نظر انداز کر کے انہیں اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں شامل کرے آمین… مشتاق احمد عباسی بھرپور اننگز کھیل کر رخصت ہوئے۔ نوائے وقت اسلام آباد سے ریٹائرڈ ہوئے تو دوستوں سے الوداعی ملاقات مسرور چہرے سے کرتے رہے‘ وہ کہتے 35/30 برس ملازمت کر کے تھگ گیا ہوں اب بقیہ زندگی آرام کرنا چاہتا ہوں بے فکری سے نیند کی وادی میں جاؤں گا اور آزادی سے صبح بیداری ہو گی دفتری اور ڈسپلن کی پابندیوں سے آزاد ہو کر زندگی گزارنے کا اپنا مزا ہے۔ مرحوم عباسی صاحب کے بڑے صاحبزادے قیصر مشتاق عباسی نے بتایا کہ بابا جان ہولی فیملی میں زیر علاج تھے پھر ضد کر کے گھر آگئے۔ گھر آنے کے بعد طبیعت سنبھل گئی ہم خوش تھے کہ چلو بہتری آ رہی ہے مگر یہ بہتری عارضی ثابت ہوئی چنانچہ فوری طور پر صادق آباد کے بڑے پرائیویٹ ہسپتال لایا گیا‘ جہاں ڈاکٹروں کے ’’سچ‘‘ نے احباب کو مزید پریشان کر دیا۔ بابا جان پوچھتے رہے کہ ڈاکٹروں نے کیا کہا ہے ؟ چہرے پر مصنوعی اطمینان لا کر ہم کچھ بھی کہتے مگر وہ شاید حقیقت جان چکے تھے۔ اس بار بابا جان نے ستلائٹ ٹائوں ( شمس آباد) کی بجائے مری (پھگواڑی) اپنے آبائی گھر جانے کی فرمائش کر دی۔ یوں ہم بارہ اگست اتوار کو مری آ گئے۔ اپنا شہر‘ اپنا گاؤں‘ اپنے لوگ‘ رشتہ دار اور مانوس موسم سے بابا مسرور ہوتے رہے۔ قیصر صاحب بتا رہے تھے کہ جمعرات سولہ اگست کی شب 2 بجے تک وہ اپنے ابو جان سے باتیں کرتے رہے اس روز انہوں نے خود سونے کی جلدی کی نہ مجھے آرام کرنے کا حکم دیا۔ معلوم نہ تھا کہ میں ان سے آخری بار ملاقات اور آخری باتیں کر رہا ہوں۔ پھر شب اڑھائی بجے کے قریب زندگی ہم سے روٹھ گئی۔
آفس میں مشتاق احمد عباسی کی رحلت کا سن کر ہر چہرہ افسردہ رہا۔ سعید جٹ‘ ملک نعمان‘ جوزف مسیح ،سلامت مسیح‘ سرور مسیح ‘ عبدالرحمن ، محمد امین‘رانا شاہد‘ زاہد حسین ‘ سعید بابر ‘ طاہر اشرف‘ ابراہیم مروت‘ ندیم اقبال ‘ حاجی شیراز‘محمد ارسلان ‘ شاہد قریشی ‘ طیب مجید،راشد عباسی‘ مشتاق شاہ ‘ چودھری یعقوب‘ محمد طفیل اور سجاد حیدر سمیت دیگرکارکن دیر تک ان کا تذکرہ کرتے رہے۔ شعبہ ایکسچینج (ٹیلی ‘ فیکس) کے سینئر کارکن عبید اﷲ سلہری نے بتایا ان کا مشتاق صاحب سے تین دہائی کا تعلق تھا وہ ہمیشہ سب کے لئے شفیق اور مہربان سائہ بنے رہے۔ غصہ آتا اور اس کا اظہار بھی کیا مگر غصے کی آڑ میں کبھی کسی کارکن کا نقصان نہیں ہونے دیا۔ مشتاق صاحب بڑا دل رکھنے والے درد مند انسان تھے۔ مری تحصیل میں ان کی شہرت سماجی کارکن کی تھی۔ وہ جوانی کے دور سے ہی حاجی مقصود احمد عباسی کے ساتھ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہے۔ اس عوامی خدمت کے ناتے انہیں اپنے گاؤں کے مسائل کے ساتھ سب لوگوں کا پتہ تھا ان کی سب سے یاری تھی وہ خاموشی سے کئی گھروں کے راشن کا بھی اہتمام کرتے۔ مشتاق احمد عباسی کی ایک اور صفت انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ان کے شہر میں کوئی حادثہ ہو جاتا یا کوئی شخص دنیا سے رخصت ہو جاتا تو وہ اس کے بارے میں ضرور کچھ نہ کچھ لکھتے اور پھر بڑے شوق سے اس کے حالات زندگی شائع کرواتے، ان کا موقف تھا کہ اہل شہر کو پتہ ہونا چاہئے کہ مرنے والے میں کون کون سی خوبیاں تھیں۔
گزشتہ ہفتے ہولی فیملی میں صغیر عباسی تیمارداری کر کے لوٹے تو بہت بے چین تھے۔ وہ دوستوں سے کہتے رہے کہ پلیز مشتاق صاحب کیلئے خصوصی دعا کریں اﷲ کریم ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔ صغیر صاحب کی خواہش پر نوائے وقت صفحہ 2 پر صحت یابی کی اپیل شائع ہوئی تو دوستوں کو مشتاق صاحب کی اصل بیماری کا پتہ چلا ۔نوائے وقت کے کارکن جمعتہ المبارک کی نماز بنک کالونی سیکٹر جی سیون 2 سے متصل مسجد میں ادا کرتے ہیں، کبھی کبھی نماز ادا کرنے اور واپس اکٹھا آتے تھے۔ ہم کہتے عباسی صاحب آپ دل کے مریض ہیں اتنی واک کیسے کر لیتے ہیں؟ وہ بولتے کہ ریاض صاحب اگر ڈاکٹروں کی بات پر کلی عمل کریں تو دنیا اور احباب سے لاتعلق ہونا پڑتا ہے۔ معالجین کو کیا معلوم کہ دوست اور احباب زندگی کی علامت ہیں، گھر اور ماحول سے آکسیجن ملتی ہے۔ طبیعت زیادہ خراب ہوتی ہے تو میں مری کا چکر لگا لیتا ہوں۔ مشتاق صاحب کی کس کس بات کا تذکرہ کریں ۔دن اور رات کے رب سے دعا ہے کہ وہ مشتاق صاحب کے درجات بلند کرے اور ان کے خاندان کو یہ سانحہ ارتحال برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ہرگام پہ فرشتوں کے لشکر ہوں ساتھ ساتھ
ہر گام پر تمہاری حفاظت خدا کرے