کالج کا الیکشن اور پولنگ ایجنٹ
یہ اس زمانے کی بات ہے جب کالجوں میں طلباء یونین ہوتی تھیں اور ہر سال ان کے الیکشن بھی ہوتے تھے ۔ڈائو میڈیکل کالج کراچی کی یونین کا الیکشن بہت مشہور تھا اور خوب ہنگامہ خیز ہوتا تھا ۔ کالج میں دو بڑی پارٹیاں تھیں ۔ ایک ینگ میڈیکوز آرگنائزیشن (YMO ) اور دوسری نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن( این ایس ایف ) YMO صرف ڈائو میڈیکل کالج تک محدود تھی اور این ایس ایفنہ صرف کراچی بلکہ ملک کے دوسرسے شہروں میں بھی موجود تھی۔ این ایس ایف سوشلسٹ پارٹی تھی اور معراج محمد خان اور دوسرے سوشلسٹ لیڈر ہمارے خلاف تقریریں کرنے ڈائو میڈیکل کالج آتے رہے۔ ولی خان اور مولانا بھاشانی کے پائے کے لیڈروں کی تقریروں سے بھی ہماراکالج گونجا اور ذوالفقار علی بھٹو جب ایوب خان سے علیحدہ ہوئے تو پیپلز پارٹی بنانے سے بھی پہلے انہوں نے این ایس ایف کی دعوت پر ڈائو میڈیکل کالج کے کمپائونڈ میں خطاب کیا۔میں کالج میں دو سال YMO کا صدر رہا ۔ الیکشن میںYMO اور این ایس ایفکے پینل کا مقابلہ ہوتا تھا ۔پینل میںصدر اور جنرل سیکرٹری کے علاوہ ، جمخانہ سیکرٹری، سوشل سیکرٹری ،میگزین سیکرٹری اور 5 کلاس رپریزنٹیٹو (CR) کلاس کے نمائندہ شامل ہوتے تھے۔ چند چھوٹے گروپ بھی تھے جو ان دو پارٹیوں سے اتحاد کرتے تھے۔1969 یا70 کے الیکشن کا واقعہ ہے۔ مقابلہ بہت کانٹے کا تھا۔ پولنگ کا مرحلہ بخوبی گزر گیا۔ الیکشن آفیسرسرجری کے پروفیسر نصیر شیخ صاحب تھے جو بعد میں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور چیئرمین ہائر ایجوکیشن بھی رہے۔ وہ طلبا دور میں این ایس ایف سے منسلک رہے تھے۔ گنتی کے وقت تمام امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ کمرے میں موجود رہا کرتے تھے۔ لیکن مذکورہ الیکشن میں الیکشن آفیسر پروفیسر نصیر شیخ نے دونوں پینل کے ایک نمائندہ کے علاوہ باقی سب کو باہر نکال دیا اور گنتی کرکے رزلٹ انائونس کردیا۔ہمارے صدر کے امیدوار مجیب الدین احمد تھے۔ وہ صرف7 ووٹوں سے کامیاب ہوئے بقیہ عہدوں پر کچھ ہمارے جیتے کچھ این ایس ایف کے۔ صدر کا الیکشن جیتنے والی پارٹی ہی فاتح کہلاتی تھی۔ اس لئے ہم خوش تھے اور رات بھر جشن مناتے رہے ۔ لیکن ہمیں احساس تھا کہ ہمارے تین CR (کلاس نمائندہ) جن کو 100 فیصد جیتنا چاہئے تھا ہار گئے ہیں۔ اگلے روز حلف برداری کے بعد یونین کی کیبنٹ میٹنگ ہوئی تو احساس ہوا کہ ان تینCR کے ہارنے کی وجہ سے ہماری اکثریت نہ ہے اور صدر اپنی کوئی بات نہ منواسکے گا ۔ مجیب الدین احمد جو PTI سے مشہور ہونے والے جسٹس وجیہہ الدین احمد کے چھوٹے بھائی تھے بڑے دبنگ سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ انہوں نے الیکشن آفیسر پروفیسر نصیر شیخ کو دوبارہ گنتی کی درخواست دی۔ پروفیسر صاحب نے نہایت نخوت کے ساتھ رد کردی۔ہم نے کالج کے پرنسپل سے درخواست کی ۔انہوں نے کہا اگر الیکشن آفیسر راضی نہیں تو میں کچھ نہیں کرسکتا ۔ ہم نے میٹنگ کرکے فیصلہ کیا کہ ہم عدالت جائیں گے۔ مجیب الدین احمد نے عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ عدالت میں فیصلہ ہوا کہ الیکشن آفیسر عدالت میں آکر جج کے سامنے دوبارہ گنتی کرے گا۔ پروفیسر نصیر شیخ صاحب کو عدالت میں جج صاحب کے سامنے گنتی کرنی پڑی اور ہمارے تین CRجیت گئے۔ مجھے یہ پچاس سال پرانا واقعہ موجودہ ملکی الیکشن میں پولنگ ایجنٹ کو گنتی کے وقت باہر نکال دینے او رپولنگ ایجنٹ کے فارم45 پر دستخط نہ ہونے کی وجہ سے یاد آگیا۔ اس کالج کے چھوٹے سے الیکشن میں صاف ظاہر ہوگیا کہ اگر امیدوار کا پولنگ ایجنٹ موجود نہ ہو تو الیکشن آفیسر باآسانی اپنی مرضی کا نتیجہ بناسکتا ہے۔
الیکشن 2018 سے پہلے تمام سروے ن لیگ کو PTI سے آگے بتار ہے تھے لیکن الیکشن رزلٹ جس کا بہت تاخیر سے اعلان ہوا PTI کے حق میں آگیا اور کئی ایسے حلقے جہاں ن لیگ کی بہت مضبوط پوزیشن تھی وہ الیکشن ہار گئی۔ ظاہر ہے دھاندلی کا الزام لگا۔ پاکستان کی الیکشن تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ الزام لگا کہ پولنگ ایجنٹس کو گنتی کے وقت باہر نکال دیا گیا۔ ان کو پولنگ اسٹیشن کے گنتی کے نتائج کا فارم 45 نہ دیا گیا اور اس پر ان کے دستخط بھی نہ لئے گئے۔ الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میںکئی موقف اختیار کئے کبھی کہا کہ پولنگ ایجنٹ جلد چلے گئے اس لئے ان کے دستخط نہ ہوسکے کبھی کہا کہ فارم45 پر پولنگ ایجنٹ کے دستخط کا خانہ ہی نہیں یعنی اس کے دستخط ضروری ہی نہیں ۔ کبھی کہا کہ سب پر دستخط ہیں جھوٹا الزام لگایا جارہا ہے تمام فارم45 الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر ڈال دئیے جائیں گے ۔ میں نے اسوقت کہا کہ یہ بہت اچھی بات ہے ۔ اگرفارم45 پر پولنگ ایجنٹ کے دستخط موجود ہوئے تو ن لیگ اور دوسری پارٹیوں کا الزام غلط ثابت ہوجائے گا اور دوسری صورت میں یعنی دستخط نہ ہوئے تو صاف ظاہر ہوجائے گا کہ نتیجہ پولنگ ایجنٹ کی موجودگی میں نہیں بنایا گیا اور کچھ بھی کیا جاسکتا ہے جیسا کہ ہمارے کالج کے الیکشن میں ہوا تھا۔ الیکشن کمیشن نے فارم45 کو نیٹ پر ڈال دیا ہے۔ دی نیوز کے نمائندہ نے بہت محنت کرکے12 ہزار پولنگ سٹیشن کے فارم 45 کا مشاہدہ کیااور معلوم ہوا کہ 10 فیصد سے بھی کم فارموں پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط ہیں بقیہ پر دستخط موجود نہیں۔ الیکشن کمیشن پھر کہہ رہا ہے کہ فارم پرپونگ ایجنٹ کے دستخط کا خانہ نہیں ہے اس لئے ان کے دستخط ضروری نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 90 (12 ) کہتا ہے کہ گنتی کے بعد پریزائڈنگ آفیسر رزلٹ بنا کر اس پر دستخط کرے گا اور سب سے سینئر اسسٹنٹ پریزائڈنگ آفیسر کے دستخط لے گا اور امیدوار یا اسکے پولنگ ایجنٹ کے دستخط لے گا اور یہ رزلٹ بنتا ہے فارم45 پر اگر اس فارم پر پولنگ ایجنٹ کے دستخط کی کوئی جگہ نہیں بنائی گئی تو یہ یقینا پلاننگ سے سازش کے تحت کیا گیا ہے۔ اور بغیر پولنگ ایجنٹ کے دستخط کا نتیجہ تو ایسا ہی ہے جیساکہ ہمارے کالج کے الیکشن کا تھا۔ وہاں تو پھر بھی پینل میں سے کوئی ایک کا نمائندہ تو موجودتھا۔ یہاں تو ایک ہی امیدوار ہے اور اس کا ایجنٹ موجود نہیں تو گڑ بڑ کے امکانات یقینا بہت زیادہ ہیں۔ ان حالات میں PTI زیادہ سیٹیں جیت جاتی ہے۔ دھاندلی کے الزامات پر عمران خان نے الیکشن کے بعد اپنی پہلی تقریر میں فرمایا تھا کہ اپوزیشن کے تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا۔ وہ جس حلقہ کو کہیں گے ہم خود اس کو کھلوانے میں اس کی مدد کرینگے۔لیکن پھر بوجوہ اس پر عملدرآمد نہ کیا جا سکا۔
جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کا انتخاب ہوا جو ظاہر ہے عمران خان جیت گئے۔ ن لیگ نے دھاندلی کے الزام کو دہراتے ہوئے شدید احتجاج کیا ۔اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے کمیٹی بنائی جائے۔ ہوسکتا ہے یہ بن بھی جائے ۔نتیجہ کیا نکلے گا۔ اس بات کا اعتراف کیا جائے گا کہ الیکشن میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور کہا جائیگا کہ آئندہ انکے تدارک کا انتظام کیا جائے ۔ جبکہ میں اپنے کالج کے تجربہ کی بنیاد پرکہتا ہوں کہ اس الیکشن کی کوئی CREDIBILITY نہیں ۔ دراصل تو الیکشن دوبارہ ہونے چاہئیں کم سے کم یہ تو ضرور ہونا چاہئے جن حلقوں میں پولنگ ایجنٹ کے دستخط نہیں وہاں گنتی پورے حلقے کی ضروردوبارہ ہونی چاہئے۔
میرے خیال میں دھاندلی روکنے کیلئے الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں کی بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ دوسری باتوں کے علاوہ پولنگ ایجنٹ کی مکمل تربیت ہونی چاہئے ۔ عام طورپر سمجھا جاتاہے کہ پولنگ ایجنٹ کا کام ہے وہ ووٹرز کو پہچانے اور کوئی جعلی ووٹ نہ ڈالنے دے۔یہ بھی ضروری ہے ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ وہ گنتی کے وقت مستعد بیٹھا ہواور ایک ایک ووٹ پر نظر رکھے کہ مہر کس نشان پر ہے۔ اور گنتی کے عمل کی نگرانی کرے۔ آخر میں فارم45 پر جب رزلٹ بنے تو اس پر پریزائڈنگ آفیسر کے دستخط اور مخالف امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کے بھی دستخط والی کاپی اپنے امیدوار کے پاس لے کر آئے۔ یہ ہدایت بہت سختی سے ہونی چاہئے کہ اگر آپ کا امیدوار اس پولنگ اسٹیشن پر ہار بھی رہا ہو تو بھی اپنی ذمہ داری مستعدی سے نبھائیں اور رزلٹ لے کر آئیں ۔اگر پولنگ ایجنٹ تمام پولنگ سٹیشن کا دستخط شدہ نتیجہ لے کر آئیں تو اس کے بعد ممکن نہیں کہ R.O یا کوئی اور نتیجہ تبدیل کرسکے۔