مکرمی :ہم اہلِ یقین تو نہ بن سکے البتہ ’’مغلوبِ گماں‘‘ ضرور ہو گئے۔ یقین کسی بھی قوم کے وجود میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ یقین کے بغیر کسی قوم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اہل یقین نئی دنیائیں تخلیق کرتے ہیں۔ معرکے سر کرتے ہیں۔ بڑے بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں۔ رکاوٹوں کے پہاڑ عبور کرتے ہیں۔ اُنہیں ہانکا نہیں جا سکتا۔ اُنہیں کوئی دبا نہیں سکتا۔ شکست نہیں دے سکتا، وہ ناقابل شکست اور ناقابل تسخیر ہوتے ہیں جبکہ یقین کی دولت سے محروم لوگ قوم نہیں ریوڑ کی مانند ہوتے ہیں جنہیں آسانی سے ’’ہانکا‘‘ جا سکتا ہے۔ بد قسمتی سے ہم پر بھی بے یقینی مسلّط کر دی گئی ہے اور ہمیں بھی ریوڑ میں تبدیل کر دیا ہے قائد نے ’’تنظیم- ڈسپلن‘‘ کو تیسرا راہنما اصول قرار دیا تھا۔ کسی بھی ریاست کا دستور یا آئین اسے تنظیم یا ڈسپلن کی لڑی میں پرونے کا کام کرتا ہے۔ قائد اعظم نے دستور ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں آئین کے راہنما اصول تو وضع کر دئیے تھے تاہم ان کے بعد ان راہنما اصولوں کے ساتھ وہ کھلواڑ ہوا کہ خود قائد کی روح بھی تڑپ اُٹھی ہو گی۔ 1973ء میں طویل عرصہ بعد اس سرزمین بے آئین کو پہلا متفقہ آئین نصیب ہوا لیکن امورِ مملکت کو ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘کے اصول پر چلانے والوں کو یہ کہاں منظور تھا ، اس لئے مختصر وقفے کے بعد ایک بار پھر آئین کی بجائے’’طاقت‘‘ کے ذریعے ’’ڈسپلن ‘‘ کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ تجربہ کسی نہ کسی رنگ میں تا حال جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر سطح پر بدترین بدنظمی، بد عنوانی اور نفسا نفسی کا دور دورہ ہے جو جتنا طاقتور ہے اُتنا بے مہار ہے ۔ ایسے میں کہاں کی تنظیم اور کیسا ڈسپلن؟ حرفِ آخر یہ کہ اگر آج بھی ہم خلوص نیت سے قائد کے راہنما اصولوں اتحاد، یقین اور تنظیم کو اپنا لیں تو ’’عظیم پاکستانی قوم ‘‘ کی تشکیل کا سفر شروع کیا جا سکتا ہے۔زخم زخم ہونے کے باوجود اگر اس ملک کے عوام کو اپنی تقدیر بدلنے کا موقع دیا جائے تو وہ برق رفتاری سے ناممکن کو ممکن بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ بیس کروڑ عوام کو آسانی سے ہنکائے جا سکنے والے جانوروں کی بجائے حقیقی معنوں میں خدائے وحدہ ‘ لا شریک کے بعد امورِ مملکت میں ’’طاقت کا سرچشمہ ‘‘ تسلیم کیا جائے (حاجی محمد گلزار اعوان)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024