چودھریوں کی سیاست اور شرافت ہمیشہ اہم رہی ہے۔ سیاست میں ’’مٹی پائو‘‘ اور شرافت میں ’’روٹی شوٹی کھا کر جائو‘‘ ان کا حوالہ رہا ہے اور رہے گا۔ ’’نئے پاکستان‘‘ کی سیاست میں بھی انہوں نے جادو جگا کر کام کا آغاز کیا ہے۔ اپنے درجن بھر ووٹوں کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف سے سیاسی دوستی کو کام میں لا کر سخت مخالفین کے ووٹوں کو اپنا بنا لینا اور 201 ووٹوں کے ساتھ سپیکر منتخب ہونا معمولی بات نہیں ہے۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویزالٰہی نے اپنے پہلے سیاسی ’’انوکی لاک‘‘ سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ سیاسی محاذ آرائی میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے مقابلے میں تحریک انصاف کا مثالی بازوئے شمشیر زن ثابت ہوں گے۔ اعلیٰ سیاسی عہدے اور ذمہ داریاں چودھریوں کے لئے نئی نہیں۔ خود پرویز الٰہی ڈپٹی پرائم منسٹر ، قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر، اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی میں سپیکر اور کامیاب وزیراعلیٰ رہے ہیں، ان کے چیف منسٹری کے دور میں پنجاب کا خزانہ آج کی طرح خالی نہیں تھا بلکہ وہ پنجاب میں بھرے خزانے چھوڑ کر گئے۔ ترقیاتی کاموں کا انحصار ان کے دور میں قرض کی بجائے صوبے کی اپنی کمائی پر تھا۔ اس دور کے بڑے ہسپتال، عوامی فلاح کے بڑے منصوبے عوامی سروس کے لئے 1122 جیسی سکیمیں اور کئی حوالوں سے قانون سازی آج بھی ان کی عوام کے لئے خدمت کی سیاست کے طور پر پار کی جاتی ہیں اگر وطن عزیز میں الیکٹرانک چینلوں کے عام ہونے کا کریڈٹ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو جاتا ہے تو وطن عزیز میں صحافیوں کو سر چُھپانے کے لئے، رہائش فراہم کرنے کے لئے صحافی کالونیوں کا بڑا منصوبہ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں شروع ہوا۔ اب پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں چودھری پرویزالٰہی نے اپنے لئے سپیکر کے طور پر پارلیمانی کردار ادا کرنے کو پسند کیا ہے تو اس بار یہ منصب بھی ان کے لئے ایک چیلنج سے کم ہیں۔ اس بار عوام میں بھی ماضی کے مقابلے میں سیاسی شعوربہت زیادہ ہے اور اسمبلی میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ارکان پر مبنی ایک بڑی اپوزیشن موجود ہے۔ ہائوس کے کسٹوڈین کی حیثیت سے سپیکر کو تمام ارکان کے لئے ایک جیسا اپنانا ہو گا۔
سیاسی محاذ آرائی سے ہٹ کر اپوزیشن کی صفوں میں بیٹھنے والے بہت سے ارکان اور ان کی فیملیز سے چودھری برادران کے ذاتی تعلقات رہے ہیں۔ دوستیاںبھی ہیں اس پس منظر میں امید کی جا سکتی ہے کہ ابتدائی چند دنوں کی کھینچا تانی کے بعد منفی محاذ آرائی معمول پر آ جائے گی اور حکمران جماعت اورپاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی پارلیمانی قیادت ذاتی فتح و شکست کے جذبے سے بالا تر ہو کر عوام اور صرف عوام کی فلاح وبہبود کا سوچ گی۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت میں شامل نئے چہروں کے لئے یہ بات مثبت ہو گی کہ ان کی اتحادی جماعت کا سپیکر یعنی چودھری پرویز الٰہی پنجاب کی بیورو کریسی کے حوالے سے بہت کچھ جانتا ہے۔ اس طرح پس پردہ مشاورت نئی حکمران جماعت کے بہت کام آئے گی۔ مجموعی طور پر انتظامی حلقوں اور عوام کی صفوں میں چودھری پرویزالٰہی کی واپسی خوشگوار قرار دی جا رہی ہے۔ ایک اچھی حکمرانی کے لئے اچھی ٹیم کے چنائو سے ہی یہ ممکن ہو گا کہ نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر آنے والی حکومت اپنے پہلے 100 دنوں کے پروگرام پر عملدرآمد کرائے اور عوام کے دلوں میں جگہ بنائے۔ نئی حکومت اورتبدیلی کا آغاز چونکہ چودھری پرویزالٰہی کی بطور سپیکر بھاری اکثریت سے جیت کے ساتھ ہوا ہے۔ اس لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ویلکم بیک چودھری پرویزالٰہی۔ اللہ کرے یہ تبدیلی عوام کے لئے واقعی کسی بڑی تبدیلی کا باعث بنے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024