اس قضیے کو سمجھنے کیلئے ہمیں دستاویزِ الحاق جس پر راجہ ہری سنگھ نے دستخط کیے کو سمجھنا پڑیگا۔ پہلے دستاویز الحاق کو لیتے ہیں اور اس کے اہم ترین نکات کو مختصراً بیان کرتے ہیں۔ یہ دستاویز، جس پر 27 اکتوبر 1947 کو دستخط ہوئے تھے، اس کی تمہید میں یوں کہا گیا ہے کہ “لہذا، میں، شریمان اندر مہندر راجراشیوار مہاریجہ دھیرج شری ھری سنگھ جی جموں کشمیر نریش ٹاتھا تبّت ادی دیشادھپاتھی، حکمران ریاست جموں و کشمیر، اپنے خود مختارانہ (sovereign) اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے‘ جو مجھے اس ریاست میں اور اس کے اوپر حاصل ہیں،ہرگاہ اس دستاویز الحاق پر دستخط کررہا ہوں۔
اس دستاویز پر مہاراجہ نے ایک خود مختار کی حیثیت سے دستخط کیے ہیں اور آنے والی شقیں اس کا بار بار اعادہ کررہی ہیں۔ مثلاً بھارت کا ریاست میں اختیار اس دستاویز میں درج شقوں کیمطابق ہوگا۔ بھارتی پارلیمنٹ کو صرف ان معاملات میں قانون سازی کا اختیار ہوگا جو 1935 ایکٹ کے شیڈول میں درج ہیں1935 (3) ایکٹ میں یا بھارت آزادی ایکٹ 1947 میں کسی ترمیم کے ذریعے اس معاہدے میں درج شرائط میں ردوبدل نہیں کیا جاسکتا(4) پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بناسکتی جس کے ذریعے جموں و کشمیر میں جبراً زمین کا حصول کیا جائے، اور اگر مرکز کو زمین کی اپنے کام کیلئے ضرورت پڑی تو میں اس کو حاصل کرکے دونگا ان شرائط پر جو باہمی طور پر طے ہونگی(5) اس معاہدے کی کوئی شق مجھے اس کا پابند نہیں کرتی کہ میں بھارت کے آئندہ بننے والے آئین کو منظور کروں نہ ہی مستقبل کے آئین کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے میرے اختیار پر کوئی پاپندی عائد ہوتی ہے (ان سب سے بڑھ کر، آخر سے پہلے کی یہ شق تو اس معاملے پر حرف آخر ہے) (6) اس معاہدے میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو اس ریاست میں اور اس کے اوپر میری خود مختاری کو متاثر کرے، یا، سوائے اسکے جیسا کہ اس دستاویز میں بیان کردیا گیا ہے، میرے اختیار، اقتدار اور استحقاق جو مجھے بحیثیت حکمرانِ ریاست حاصل ہیں کم کرے اور نہ ہی ان قوانین کی تنقیذ جو اس وقت نافذ العمل ہیں۔
مندرجہ بالا دستاویز کی روشنی میں جب نومبر 1949 میں بھارت کے آئین کی منظوری ہورہی تھی تو کشمیر کی حیثیت کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ کشمیر کی حیثیت کو آئین کے اس حصے میں ڈال دیا جائے جو عارضی، انتقال اور خصوصی معاملات سے متعلق ہے۔ اس کیلئے آئین میں ایک نیا آرٹیکل شامل کیا گیا جس کا نمبر 370 ہے۔ اس کے تحت بھارت کے آئین میں جو کچھ بھی لکھا ہو، ریاست کشمیر کے ضمن میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق صرف ان معاملات تک محدود ہے جو ریاستی حکومت کے مشورے سے صدر جمہوریہ طے کریں گے اور جو دستاویز الحاق سے مطابقت رکھتے ہیں۔ مزید براں صدر اس بات کا بھی تعین کرینگے کہ آئین کے کونسے حصے کشمیر میں لاگو ہونگے بشرطیکہ ریاستی حکومت کی اس سے منظوری ہوگئی ہے۔ صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس آرٹیکل کو ختم کردیں، لیکن صدر یہ اختیار صرف اس صورت میں استعمال کرینگے جب ریاستی حکومت اس کو منظور کرلے۔
آرٹیکل 35A کو صدر مملکت نے مندرجہ بالا اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اور ریاستی حکومت کے مشورے سے 1954 میں نافذ کیا، جو درحقیقت معاہدہ دہلی 1952 کو آئینی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ بنیادی طور پر 35A میں 1927 اور 1932 کے ان قوانین کو تحفظ دیا گیا ہے جو جموں و کشمیر کے “مستقل رہائشی” کی تعریف کرتے ہیں اور اس کے حقوق اور مراعات (مثلاً ریاست میں جائیداد صرف مستقل رہائشی حاصل کرسکتا ہے اور سرکاری نوکریاں اور دیگر ریاستی سہولتوں پر ان کو سبقت حاصل ہوگی)۔ یہ دونوں قوانین دستاویز الحاق کی مندرجہ بالا خط کشیدہ تحریر کی شق کے عین مطابق ہیں کیونکہ یہ دونوں قوانین دستاویز پر دستخط کے وقت موجود تھے۔ یہ ہے وہ تاریخی پس منظر جس میں ریاست جموں و کشمیر نے بھارت کیساتھ الحاق کیا۔ وادی کے عوام جانتے تھے کہ بھارت کی قوت قاہرہ اسقدر شدید ہے کہ وہ اس سے لڑائی نہیں کرسکتے، لہذا ان کی جدوجہد آئین میں فراہم کردہ اختیارات تک محدود ہے۔ انہیں یہ اختیارات اور حقوق بھی حاصل نہیں ہیں جو آئین میں فراہم کیے گئے ہیں۔ مہاراجہ نے الحاق کی دستاویز 1935 ایکٹ کے تحت منظور کی تھی، نئے بھارتی آئین کی اس پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ جب کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے الحاق کے فیصلے کی توثیق کی اور جموں کشمیر کو جبراً بھارت کا حصہ قبول بھی کرلیا، تو انہوں نے یہ منظور 370 آرٹیکل اور دہلی معاہدے کی بنیاد پر کیا۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ نے اس تمام عمل کو سند جواز نہیں دیا اور اس کی قراردادیں آج بھی کشمیر کو متنازعہ علاقہ مانتی ہیں اور استصواب رائے کا تقاضہ کرتی ہیں۔
اب سپریم کورٹ میں دو درخواستیں ایک 2014 اور دوسری 2017 میں داخل کرائی گئی ہیں۔ پہلی درخواست 35A کو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہونے کی وجہ سے اس کی تنسیخ چاہتی ہے اور دوسری اس کو امتیازی سلوک پر مبنی ہونے کیوجہ سے اس کی تنسیخ چاہتی ہے۔ جموں و کشمیر کی حکومت نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے جواب داخل کرایا اور درخواست کو مسترد کرنے کی درخواست کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے حکومت کیطرف سے یہ بیان داخل کرایا ہے کہ وہ اس کا کوئی جواب داخل نہیں کرائینگے لیکن حکومت اس موضوع پر ’وسیع تر بحث‘ کرانا چاہتی ہے۔ یہ اشارہ ہے اس جانب کہ حکومت اس معاملے میں ان درخواستوں کی حامی ہے۔ اور مرکزی حکومت جو ان آئینی معاملات میں براہ راست مذاکرات اور گفت و شنید کرتی رہی ہے، وہ آج ان سمجھوتوں کا دفاع کرنے کے بجائے ان سے لاتعلقی اور بے اعتنائی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ کورٹ کچھ بھی فیصلہ کردے ہمیں کچھ نہیں ہوتا۔ یہ وہ رویہ تھا جس کے ردعمل میں وادی کے عوام سراپا احتجاج کرنے لگے اور ہلاکتوں اور ریاستی تشدد کا ایک نیا باب کھل گیا۔
’بنیادی ڈھانچے‘ کی اصطلاح دراصل ایک عدالتی نظریہ ہے۔ شروع میں بھارتی سپریم کورٹ اس رائے کی حامی تھی کہ پارلیمنٹ کو آئینی ترامیم کے لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ لیکن اندرا گاندھی نے جب عدالتی اختیارات پر قدغن لگانے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے اس نظریہ کو وضع کیا اور اس ترمیم کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف قرار دیکر منسوخ کردیا۔ اب تک اس نظریے کا استعمال بنیادی حقوق سے متعلق قانون سازی تک ہی محدود رہا ہے۔ بادی النظر میں کشمیر کی حیثیت کے سلسلے میں آئین میں کیے گئے خصوصی انتظامات کا ’بنیادی ڈھانچہ‘ کے نظریے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ درحقیقت یہ کوئی آئینی ترمیم نہیں ہے جس کو اس نظریے کی کسوٹی پر جانچا جائے۔ یہ تو اصل آئین کا حصہ ہے، پارلیمنٹ کا منظور شدہ ہے، قومی رہنماو¿ں نے مذاکرات کرکے جو سمجھوتے کیے اور یقین دہانیاں کرائیں اسکے بعد اس کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔ یوں یہ ایک سیاسی عمل کا حصہ ہے اور اس کو عدالتی قضیہ نہیں بنانا چاہیے تھا اور اگر ایسا ہور ہا ہے تو مرکزی حکومت کو اس کی بھرپور مخالفت کرنی چاہیے تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ ا±ن خصوصی حالات اور پس منظر کو مدنظر رکھے گی جو جموں و کشمیر کے الحاق سے وابستہ ہیں اور کشمیری عوام کی امیدوں کا بھی خیال کھا جائیگا اور ان سے کیے گئے وعدوں کو بھی جو قومی رہنماو¿ں نے ان سے کیے ہیں۔ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024