عمران خان 22 سال جس خواہش کی تکمیل کے لئے جدوجہد کرتے رہے وہ بالآخر 18 اگست کو پوری ہو گئی۔ غالب نے ٹھیک کہا تھا ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے“ جس طرح پہاڑکی چوٹی سے پرے کچھ نہیں ہوتا اسی طرح وزیراعظم بننے کے بعد ایک دو بار پھر وزیراعظم بنا جا سکتا ہے۔ سیاسی زندگی میں اس سے بڑا منصب اور کوئی ۔ نواز شریف کو وزیراعظم کی کرسی پر تین بار بیٹھنا نصیب ہوا لیکن اس کرسی کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ طویل جلاوطنی اٹک کا زندان خانہ اور پھر اڈیالہ جیل میں قید تنہائی کا ذائقہ بھی چکھنا پڑا۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے وزارتِ عظمیٰ کی قیمت تختہ¿ دار پر جھول کر ادا کی۔ بے نظیر بھٹو نے وزارت عظمیٰ کی قیمت خون دے کر ادا کی۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی وزارتِ عظمیٰ کے بدلے جان لی گئی۔ایوب خان نے صدارت کی قیمت گالیاں سُن کر ادا کی۔ جنرل ضیاءالحق کو صدارت کی قیمت شہادت کا رتبہ پا کر ادا کرنا پڑی۔ جنرل پرویز مشرف خوش قسمتی سے صدارت کے مزے لینے کے بعد عذابوں سے نکل کر بھاگ نکلے۔ وزارتِ عظمیٰ سچ مچ کانٹوں کی سیج ہے اس وقت میزان سیاست میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کم و بیش برابر کا جوڑ ہیں۔ مینڈیٹ تو ملا ہے لیکن بھاری مینڈیٹ نہیں، نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ نے نااہلی اور معزولی کا بھی مزا چکھایا ۔ عمران خان دور کی اپوزیشن وہ کردار ادا کرے گی جو اس سے پہلے کسی اوراپوزیشن نے ادا نہیں کیا تھا۔ باریاں لینے والے ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ حلیف اور فرینڈلی اپوزیشن ثابت ہوئے۔
پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے شہباز شریف سے منہ پھیر لیا یوں اپوزیشن منتشر ہو گئی اور اب حزبِ اقتدار کےلئے بلّے بلّے ، عمران خان نے شہباز شریف سے مصافحہ کر لیا لیکن آصف زرداری نے شہباز کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔ آصف زرداری ہر مشکل سے نکلنے کے لئے ترپ کا پتا ساتھ رکھتے ہیں۔ انور مجید کی گرفتاری آصف زرداری کے لئے ایک آزمائش ہے۔ جیل سے نواز شریف کے پیغام نے شہباز شریف کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ عمران خان نے ریاست مدینہ کا فلاحی نظام لانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ ان کے علم میں ہو گا کہ معاشرہ میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں زیادتی ظلم اور تشدد نہ ہو رہا ہو کراچی کی ایک شاہراہ پر تحریک انصاف کے ایم پی اے عمران علی شاہ نے سرِعام معصوم شہری پر تھپڑوں کی بارش کر ڈالی۔ کیا ایسے بے رحم رکن اسمبلی ریاست مدینہ کا مفہوم جانتے ہیں؟ زمینداروں کے ہاتھوں غریب مزدوروں پر تشدد عام بات ہے۔ ظالم ہاتھ تک کاٹ دیتے ہیں۔ زیادتی کا نشانہ بننے والے غربت اور بے بسی کے ہاتھوں خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے لئے پہلا قدم ہر خاص و عام کے لئے دروازے کھلے رکھنا ہونا چاہئے۔ اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے سیکرٹریٹ کے دروازے کھلے رکھے جائیں عام شہری کی ہر سرکاری افسر تک بلارکاوٹ رسائی ہو۔ ایم پی اے ایم این اے سینٹر اور وزراءسے ملنا آسان ہو۔ پرانے اور نئے پاکستان کا فرق واضح ہونا چاہئے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں 30 ووٹوں کا فرق ہے۔ 100 دن کا ہنی مون عرصہ گزرنے پر اپوزیشن حرکت میں آئے گی۔
عمران خان کا بڑا نعرہ ”تبدیلی“ تھا لہٰذا ہر پاکستانی ہر سطح پر تبدیلی دیکھنے کا متمنی ہے۔ مفاہمت اور مصالحت کے بغیر پارلیمنٹ نہیں چل سکتی۔ عمران حکومت کے اچھے کاموں کی حمایت اور غلطیوں کی نشاندہی اپوزیشن کا مطمع نظر ہوناچاہئے۔سیاست کوئی جامد چیز نہیں۔ ملک کئی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ عمران خان پر لبرل ازم کا الزام ہے ۔یہ تو وقت بتائے گا کہ حکومت کتنی لبرل ازم کی اجازت دیتی ہے۔ لبرل ازم کے رد کے لئے مزاحمتی قوتیں ہروقت تیار رہتی ہیں بلکہ بہانے مانگتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق طویل رخصت پر نہیں چلے گئے۔
عمران خان کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ سعودی اور چین نے مالی تعاون کی پیش کش کی ہے۔ دوست دہی ہے جو بغیر مانگے تنگ دستی کو بھانپتے ہوئے مدد کی پیش کش کرے۔ بیرونی قرضوں کا حجم 90 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ سال کے اواخر تک یہ 100 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ گزشتہ دو ماہ سے کرنٹ اکاﺅنٹ کا خسارہ دو ارب ڈالر کے حساب سے بڑھ رہا ہے جبکہ 8 سال قبل کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ دوارب ڈالر سالانہ تھا۔ گردشی قرضے بھی ایک ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ تجارتی خسارہ 3.19 ارب ڈالر ہے گویا حکومت روزِاول سے ہی دباﺅ میں آ چکی ہے تاہم جمہوری تسلسل کا سنہری دور ہر آنے والے دن کے ساتھ زیادہ روشن و تاباں دکھائی دینا چاہئے۔ ہر طرف ایک ہی سوال ہے کیسا ہو گا نیا پاکستان؟ مشکل میں پھنسے ”مٹی پاﺅ“ ”معافی تلافی“ ”درمیانی راستہ“ ڈھونڈ رہے ہیں۔ جدہ کے سرور پیلس میں تو آٹھ سال گزر سکتے ہیں۔ اڈیالہ کے دس سال ایک صدی کے برابر ہیں اور پھر ایوان صدر میں گزارے پانچ سال کے بعد کس کا جی چاہے گا لانڈھی جیل کو ایک بار پھر دیکھ لے۔ اڈیالہ اور لانڈھی نئے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار رہتی ہیں۔ رانا ثناءاللہ مشورہ دے رہے ہیں اپوزیشن کا اتحاد جتنا موثر ہو گا اتنا ہی زرداری کے لئے بہتر ہو گا۔ کاش یہ بات انہوںنے دور اقتدار میں نواز شریف کو بتائی ہوتی کہ میثاق جمہوریت کے بعد طلاق دینے سے دوبارہ ملاپ ممکن نہیں ہوتا۔
عمران خان روس کے صدر پوٹین اور ترکی کے صدر طیب اردگان کے اصلاحاتی رول کو سامنے رکھیں ساﺅتھ کوریا اور انڈونیشیا کی مثالیں بھی سامنے ہیں۔ 1998ءکے ایشیائی مالیاتی بحران سے مذکورہ ملک باہر نکل گئے زرعی پیداوار میں 20 فیصد اضافے سے ہماری زرعی جی ڈی پی پانچ ارب ڈالر تک بڑھ سکتی ہے۔ برآمدات میں بھی 8 سے 10 ارب ڈالر اضافہ ممکن ہے۔ سری لنکا نے ٹورازم سے آمدنی میں 2009ءکی سول وار کے بعد 10 گنا اضافہ کیا ہے۔ سری لنکا میں ٹورازم سے سالانہ چار ارب ڈالر آمدنی ہو رہی ہے یہاں بھی اتنی آمدنی ممکن ہے۔ پانچ سال میں قرضہ 30 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ 6.6 ارب ڈالر کا بیل آﺅٹ پیکج لینا ناگزیر دکھائی دیتا ہے اگر نہ لیا گیا تو بیرونی قرضہ 18 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ ملک کی طویل لوڈ شیڈنگ کا عذاب قوم پر مسلط کیوں؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024