اتوار ‘ 7 ذی الحج 1439 ھ ‘ 19 اگست 2018ء
نئی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شیخ رشید کی کمی
گزشتہ روز نئی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں حسب توقع نئے وزیراعظم کی تقریر کے موقع پر ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی بھی خوب جم کر ہوئی۔ اس دوران تحریک انصاف کی پہلی صفوں میں موجود رہنے والے نعرے بازی اور شور شرابے میں سند یافتہ پارلیمانی ممبر شیخ رشید دور دور تک کہیں نظر نہیں آئے۔ وہ عقبی نشستوں پر نجانے کیوں کھوئے کھوئے سے بیٹھے رہے۔ ان کی اس موقع پرعملاً غیر حاضری کئی سوال چھوڑ گئی۔ جب کہ ہر ایم این اے نے اپنے نئے وزیراعظم کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لئے ان کے گرد گھیرا ڈالے رکھا بعد میں شہباز شریف کی تقریر کے دوران نعرے لگا لگا کر نمبر بنانے میں مصروف تھے۔ اس ہجوم عاشقاں میں وہ قتیل خان کہیں نظر نہیں آیا جو کامل 5 برس تماشہ لگانے میں ماہر تصور کیا جاتا تھا۔ اب وہی شیخ جی پارلیمنٹ میں موجود تھے وہ بھی یوں کہ گویا نہیںہیں۔ نہ آواز نہ شور نہ بھاگ دوڑ بقول غالب ....
صبح فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
شیخ جی حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے کہیں دور نظر آئے۔ شاید شیخ جی بھول رہے تھے کہ فلم میں بڑے سے بڑے نام والے آج کا کریکٹر ایکٹر کا کردار ہے جسے مہمان اداکار بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک مختصر وقفے کے لئے ایسا کردار فلم بینوں کی توجہ مبذول کرانے کے سوا اورکچھ نہیں ہوتا۔
٭........٭........٭
انور مجید کو قومی ادارہ امراض قلب داخل کرادیا گیا
ایک تو ہمارے ہاں یہ تماشہ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک بھلا چنگا بیورو کریٹ، سیاستدان، سابق آرمی افسر ، تاجر یا صنعتکار جب قانون کے شکنجے میں آتا ہے تو ایک ہی رات یا ایک ہی روز بعد شدید بیمار ہو جاتا ہے۔ بیمار بھی ایسا ویسا نہیں کہ عام سر درد یا بخار ہوجس میں ایک ڈسپرین یا پینا ڈول کھانے سے افاقہ ہو جائے۔ ایسی ایسی شدید اقسام کی بیماریاں ا ن کو لاحق ہو جاتی ہیں کہ جیل میں یا حوالات میں ایک رات بھی بسر کرنا ممکن نہیں رہتا اور انہیں فوری طور پر بہترین ہسپتال میں علاج کے لئے منتقل کیا جاتا ہے۔ جہاں کے ذہین فطین ڈاکٹر فوری طور پر ان بیماریوں کی سابق ہسٹری پڑھ کر انہیں نئے سرے سے شدید بیمار ظاہر کر دیتے ہیں۔ یوں موجاں ای موجاں۔ یہ لوگ ہسپتالوں میں آرام فرماتے ہیں۔ اب زرداری صاحب کے فرنٹ مین انور مجید کو ہی دیکھ لیں جو عارضہ قلب کے سبب ہسپتال داخل ہو گئے ہیں۔ جبکہ وہ گرفتاری سے قبل خود عدالت میں سیڑھیاں چڑھ اُتر رہے تھے۔ گرفتاری بعد ائیر پورٹ پر بھی کس قدر چاق و چوبند تھے کہ جب ایف آئی اے والوں نے اس کے بیٹے کو ہتھکڑی لگانی چاہی تو موصوف نے دست درازی کرتے ہوئے افسر کو دھکے دئیے اور بیٹے کو ہتھکڑی لگانے نہیں دی۔ حالانکہ اس موقع پر وہ بھی مشہورڈائیلاگ کہہ سکتے تھے کہ یہ ہتھکڑیاں ہمارا زیور اور جیل ہمارا دوسرا گھر ہے۔ آخر یہ لوگ ایسے کام کرتے ہی کیوں ہیں جس کا نتیجہ ایسے نکلتا ہو۔ اس طرح دونوں باپ بیٹا بنا ہتھکڑی کے ائیر پورٹ سے باہر آئے۔ ویسے ایف آئی اے والوں نے یہ رعایت انہیں کیوں دی۔ کیا پیسے والوں کے لئے قانون کچھ اور ہے غریبوں کے لئے کچھ اور۔
٭........٭........٭
شہباز اور فضل الرحمن ایک ماہ دھرنا دیں کھانا اور کنٹینر ہم دینگے۔ وزیراعظم عمران خان
بخدا آج تک پاکستانی عوام نے ایسا دیالو وزیراعظم نہیں دیکھا ہو گا جو خود اپوزیشن کو دعوت دے رہا ہے کہ ڈی چوک سامنے ہے آپ آئیں لوگوں کو لائیں آپ لوگوں کو کھانا اور کنٹینر میں دوں گا۔ اب اس سے اچھی آفر تو صرف یہی ہے کہ بندہ کوئی جرم کر کے جیل چلا جائے۔ وہاں رہائش اور کھانا فری ہوتا ہے۔ مگر جیل جانے سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ وزیراعظم کی پیش کش قبول کر لی جائے۔ ورنہ مظاہرین اوردھرنے والوںکو تو ڈنڈے اور آنسو گیس کے گولے ہی مفت میں ملتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن اس پرکشش آفر کا کیا جواب دیتے ہیں۔ اس بہانے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی کچھ تفریح کا سامان بھی پیدا ہو جائے گا۔ ویسے بھی پیپلز پارٹی والوں کی طرف سے بے وفائی کے بعد متحدہ ا پوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ پیپلز پارٹی والوں نے اپنے قائد کو بچانے کے لئے کسی بھی احتجاجی مہم سے دوری کا اعلان کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی بھی ایم ایم اے سے بھاگنے کے لئے پر تول رہی ہے۔ شاید اگلے الیکشن میں پھر واپس آ جائے۔ فی الحال لے دے کر متحدہ اپوزیشن میں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام رہ گئی ہیں۔ شہباز شریف قدرے نرم گرم ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن تو گرما گرم ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ فری کھانے اور کنٹینر کی آفر کو قبول کرتے ہیں یا ٹھکرا دیتے ہیں۔ ویسے وزیراعظم اگر کنٹینر اور کھانے کے ساتھ گرما گرم کشمیری چائے اور حلوے کی بھی آفر کریں تو شاید دونوں مان جائیں۔
٭........٭........٭
سپاٹ فکسنگ کے ماسٹر مائنڈ ناصر جمشید پر 10 سال کیلئے کرکٹ کے دروازے بند
ایسے لوگ کرکٹ کی بدنامی کا ہی نہیں پوری قوم کے لئے شرمندگی کا باعث ہوتے ہیں۔ پیسے کی چمک دمک کس کے من کو نہیں بھاتی مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ غریب چوری کرے یا ڈاکہ مارے۔ کرکٹر تو پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ ان کو کھیل کے ساتھ گلیمر اور روپے پیسے بھی نصیب ہوتے ہیں۔ پھر بھی حرص ختم نہ ہو تو انجام یہی ہوتا ہے جو ناصر جمشید کا ہوا ہے ، اب موصوف یا ان کی بیگم لاکھ وضاحتیں کریں کیا ناصر جی اتنے ہی معصوم تھے کہ بکیوں سے رابطہ کے باوجود خبردار نہ ہوئے بلکہ ان کی باتوں میں آ کر دوسرے کھلاڑیوں کو ورغلاتے ہوئے بھی کوئی خوف محسوس نہیں ہوا۔ سونے پہ سہاگہ تو یہ ہے کہ ان غیر قانونی معاملات سے بورڈکو اعلیٰ افسران کو بھی آگاہ نہیں کیا۔ اگر ان سب باتوں کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھولے بادشاہ ہیں تو یہ ان کی شان بے نیازی ہے۔ اب خود ہی بھگتیں خود کو بھی گمراہ کیا دوسروں کو بھی ورغلایا اور ساری واردات چھپا کر رکھی اس پر بھی دعویٰ معصومیت یہ تو ’ ’ لڑتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار بھی نہیں “ والی بات ہے۔
٭........٭........٭