وزیراعظم کے پاس عوام اور اپوزیشن کو مطمئن کرنے کے بہت سے مواقع موجود ہیں
عمران خان کا بطور وزیراعظم حلف اور اپوزیشن قائدین کا پارلیمانی کمیشن کی تشکیل کا تقاضا
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ کسی ڈاکو کو این آر او نہیں ملے گا‘ ملک اور قوم کو لوٹنے والے افراد کا کڑا احتساب ہوگا اور قوم کو مقروض کرنیوالے کسی شخص کو نہیں چھوڑیں گے۔ گزشتہ روز ملک کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں‘ وہ تبدیلی لائیں گے جس کیلئے قوم ترس رہی ہے۔ وہ 22 سال کی جدوجہد سے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے 47 حلقے ایسے ہیں جہاں انکے امیدوار 3 ہزار ووٹوں سے ہارے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کے کئی حلقے ایسے ہیں جہاں انکے امیدواروں کو محض چار ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی۔ اگر ہماری کوئی مدد کررہے تھے تو وہ ان حلقوں میں کیوں ہمیں نہ جتواسکے۔ انہوں نے کہا‘ وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے انہیں پاکستان میں تبدیلی لانے کا موقع دیا جس کیلئے قوم نے 70 سال تک انتظار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اللہ کے سامنے وعدہ کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس ملک کو لوٹا اور مقروض کیا ہے‘ وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ انکے بقول انکی کسی فوجی آمر نے پرورش نہیں کی‘ وہ اپنے پاﺅں پر خود کھڑے ہو کر آئے ہیں‘ وہ ہر اس آدمی کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرینگے جس نے اس ملک کے بچوں کا مستقبل لوٹا اور قوم کا پیسہ چوری کرکے باہر لے گئے۔ انہوں نے کہا‘ ہم اپنی قوم سے اتنا پیسہ اکٹھا کرینگے کہ ہمیں آئی ایم ایف یا کسی ملک کے آگے نہ جھکنا پڑے۔ وہ پوری کوشش کرینگے کہ اپنے نوجوانوں کا مستقبل ٹھیک کریں اور پاکستانی نوجوانوں کو ملازمت کیلئے ملک سے باہر نہ جانا پڑے۔ ہم اسی ملک میں انہیں نوکریاں فراہم کرینگے۔ انہوں نے اپوزیشن کو دعوت دی کہ وہ دھاندلیوں کے الزامات کی جس بھی طریقے سے تفتیش کرانا چاہتے ہیں‘ ہم اس کیلئے انکی مدد کرینگے۔ انکے بقول ہم نے کہیں دھاندلی نہیں کی۔
عمران خان ہفتے کے روز ایوان صدر میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد عوام کے مینڈیٹ اور آئین کے تقاضے کے مطابق باضابطہ طور پر وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوچکے ہیں۔ آج وہ بطور وزیراعظم قوم سے خطاب بھی کررہے ہیں اور اپنی کابینہ بھی تشکیل دے رہے ہیں۔ اسی طرح صوبوں میں بھی حکومت سازی کے مراحل تقریباً مکمل ہوچکے ہیں‘ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے سپیکروں‘ ڈپٹی سپیکروں کا انتخاب ہوچکا ہے۔ تین صوبوں سندھ‘ خیبر پی کے اور بلوچستان کے قائد ایوان بھی منتخب ہوچکے ہیں اور پنجاب میں بھی آج قائد ایوان کا انتخاب عمل میں آجائیگا جس کیلئے تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب کے وزیراعلیٰ کیلئے پہلے ہی عثمان بزدار کو امیدوار نامزد کیا جاچکا ہے۔ اسی طرح تمام صوبوں میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی جانب سے گورنروں کی نامزدگی بھی عمل میں آچکی ہے اور ملک کی پارلیمانی تاریخ کے اس اہم مرحلہ میں آئندہ ماہ صدر مملکت کا انتخاب بھی عمل میں آنیوالا ہے جس میں پی ٹی آئی کی جانب سے تحریک انصاف کراچی کے قائد عارف علوی کو امیدوار نامزد کیا جاچکا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ جس طرح وفاق اور تین صوبوں میں پی ٹی آئی کو اپنی اور اپنے اتحادیوں کی حکومت تشکیل دینے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ اسی طرح یہ جماعت صدر مملکت کے انتخاب میں بھی سرخرو ہو جائیگی چنانچہ اقتدار کے ایوانوں میں آئندہ پانچ سال تک پی ٹی آئی کا راج ہوگا جس کے دوران اس پارٹی کی قیادت کو سسٹم کی تبدیلی‘ عوام کی خوشحالی‘ پاکستان کے استحکام‘ اسکی خودمختاری کے تحفظ اور میرٹ و انصاف کے بول بالا کیلئے اپنی پارٹی کے ایجنڈے اور منشور پر عملدرآمد کرانے کے مکمل مواقع دستیاب ہونگے۔ عمران خان کو قومی سیاست میں اپنی استقامت‘ اصول پسندی اور ملک و قوم کی خدمت کے بے پایاں جذبے کا وزارت عظمیٰ کی صورت میں پھل ملا ہے‘ انہوں نے جس عزم و یقین کے ساتھ ”سٹیٹس کو“ والے فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے‘ عوام کے روٹی روزگار‘ مہنگائی‘ لاقانونیت کے مسائل حل کرنے‘ اقوام عالم میں وطن عزیز کا تشخص بحال کرنے اور بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل حل کرنے کیلئے پیش رفت کرنے کے دعوے اور اعلانات کئے‘ اسکی بنیاد پر یقیناً عوام نے انکے ساتھ بہت سی توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں جو فی الواقع انہیں اپنے اور ملک کیلئے امید کی کرن سمجھتے ہیں اس لئے انہیں ایک مدبر قومی لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے آبرومندی کے ساتھ عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔ انہیں اپنے دور حکومت میں ایک مضبوط اور گھاگ اپوزیشن کا سامنا رہے گا‘ بے شک انکے مدمقابل قائم ہونیوالی متحدہ اپوزیشن ٹوٹ پھوٹ کا شکارہو چکی ہے اور صدر مملکت کے انتخاب کے موقع پر بھی پی ٹی آئی کے امیدوار کے مدمقابل کسی ایک متفقہ امیدوار کو لانے کا امکان کم نظر آتا ہے اسکے باوجود اپوزیشن جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اپنے اپنے پلیٹ فارم پر بھی حکومت کو زچ کرنیوالی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیںاس لئے حکمران پی ٹی آئی کو بطور اپوزیشن اپنے کردار کو پیش نظر رکھ کر اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانیوالے ایشوز پر اسے مطمئن رکھنا ہوگا تاکہ اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے‘ دھرنا دینے اور لاک ڈاﺅن جیسے اقدامات اٹھانے کی نوبت ہی نہ آئے۔
اس وقت اپوزیشن ہی نہیں‘ حکمران پی ٹی آئی کی جانب سے بھی 25 جولائی کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کے کردار پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے‘ بالخصوص مختلف حلقوں میں شکست اور جیت کے مارجن سے زیادہ ووٹ مسترد ہونے‘ آرٹی ایس کے بیٹھ جانے اور انتخابی نتائج میں تاخیر ہونے پر زیادہ تحفظات سامنے آئے ہیں اور اسی بنیاد پر نئے انتخابات کے تقاضے کیلئے پی ٹی آئی کی مدمقابل جماعتوں میں اتحاد ہوا تھا جن کی جانب سے احتجاجی تحریک کا آغاز بھی کیا گیا جبکہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے بعد پارلیمانی جماعتوں کے قائدین بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف‘ پیپلزپارٹی کے صدر بلاول بھٹو زرداری اور بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن بنانے کا یکسو ہو کر تقاضا کیا ہے۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں انتخابی دھاندلیوں کے الزامات پر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے ارکان نے جس انداز میں ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی قیادتوں کے لتے لئے وہ بھی پارلیمانی تاریخ کا کوئی خوشگوار واقعہ نہیں تھا جس کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر کے آغاز میں بجا طور پر باور کرایا کہ ان دونوں جماعتوں نے آج عوام کو مایوس کیا ہے تاہم وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے تقاضوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپنی تقریر میں باضابطہ طور پر یہ اعلان کردیا کہ اپوزیشن انتخابی دھاندلیوں کی جس بھی طرح تفتیش چاہتی ہے‘ ہم اس کیلئے اسکی معاونت کرینگے۔ اگر انکے اس اعلان کی بنیاد پر انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن تشکیل دے دیا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف اپوزیشن کے اعتراض کی گنجائش ختم ہو جائیگی بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی بھی تسلیم ہو جائیگی جس کیلئے گزشتہ پارلیمنٹ میں پیپلزپارٹی کے علاوہ تحریک انصاف بھی اس امر کی متقاضی رہی ہے کہ انتخابی دھاندلیوں اور پانامہ لیکس سمیت ہر اہم ایشو کو پارلیمنٹ میں لا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جائے۔ سابق حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے متذکرہ معاملات پارلمنٹ میں لانے کے بجائے گیند عدلیہ کی کورٹ میں پھینکی اور اس کا خمیازہ بھگت لیا اس لئے اب توقع یہی کی جانی چاہیے کہ حکمران پی ٹی آئی کم از کم سابق حکمران مسلم لیگ (ن) کی غلطیاں نہیں دہرائے گی اور عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ کی دیگر ریاستی اداروں پر آئینی برتری تسلیم کرائے گی۔
وزیراعظم عمران خان کو جن اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے‘ قوم کو توقع یہی ہے کہ ان چیلنجز سے عہدہ برا¿ ہونا کرشماتی شخصیت کے باعث عمران خان کیلئے چنداں مشکل نہیں۔ وہ ان چیلنجوں کے تناظر میں اقوام عالم میں وطن عزیز کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دینگے اور عوام کے گوناںگوں مسائل حل کرکے انہیں بھی مطمئن کردینگے تو ایک قومی ہیرو کی حیثیت سے وہ عوام کے دلوں میں ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے۔