ہم آج تو صبح ہی ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ گئے۔ گھر کے لوگ حتیٰ کے میری بیوی صاحبہ رفعت خانم بھی میرے پاس بیٹھ گئی۔ عمران خان کی وزیراعظم کے طور پر حلف وفاداری کی تقریب سارے وزرائے اعظم سے مختلف اور دلچسپ تھی۔ برادرم ڈاکٹر بابر اعوان نے ہمیں صدر زرداری کی تقریب میں بلایا۔ آج میں عمران کی تقریب میں برادر ڈاکٹر بابر اعوان کو دیکھ دیکھ کر زیادہ خوش ہوا۔ وہ رکن اسمبلی نہ ہوتے ہوئے بھی کس قدر اہم آدمی ہیں۔ دوستدار آدمی بھی ہیں۔ میں اسلام آباد جاﺅں تو کسی کو ملوں نہ ملوں برادرم ڈاکٹر بابر اعوان سے ضرور ملتاہوں۔ وہ لاہور آئیں توہم سے ضرور ملتے ہیں۔ ان کے سیاسی کمالات بھی بہت ہیں۔ غیر سیاسی اوصاف بھی بے شمار ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی میں نہیںمگر بات مانی جائے گی۔
آج مجھے میانوالی اور اسلام آباد ایک جیسے لگے۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میانوالی سے کوئی پاکستان کا وزیراعظم ہو گا۔ ہو گیا اب وہ ثابت کرے کہ جو اس نے کہا تھا سچ تھا۔ کہنے اور کرنے میں کوئی فاصلہ نہ رہے۔ ایسا کوئی فیصلہ جو کسی حکمران نے اب تک نہیں کیا۔ نجانے کیوں میرادل کہتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کرے گا۔ جو کبھی نہیں ہوا۔
لوگ مجھے مبارکباد دے دیتے ہیں کہ تمہارے میانوالی کا عمران خان پاکستان کا وزیراعظم بن گیا۔ عمران خان سے صرف تین چار ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ بنا نہیں ، عوام نے اسے بنایا ہے۔ اب وہ عوام اور حکام کا فرق مٹا دے۔
جتنا وہ خود تبدیل ہوا ہے اتنا ہی پاکستان کو بدل دے تو بھی ابھی کافی ہے۔ نیا پاکستان بن گیا۔ اب اور بھی نیا بنانا ہو گا۔ میں نے پچھلے کسی کالم میں کہا تھا کہ کوئی بھی کام جدید وقدیم کے امتزاج سے کارنامہ بنتا ہے۔ ہم ابھی کارنامے کی امید میں ہیں۔ عمران کچھ کام تو کرے جو سب کے لئے ہو۔ ہم مطمئن ہوجائیںگے۔ ابھی وہ ہمیں خوش نہ کرے۔ مطمئن ہی کرے۔ ہم خود بخود خوش ہو جائیں گے۔ ہم خوش ہونے کے لئے کب سے منتظر ہیں اور تیار بیٹھے ہیں۔
میں نے اپنے کالموں میں عمران سے اختلاف بھی کیا ہے۔ اعتراف بھی کیا۔ مگر نجانے کیوں بڑے لوگوں کو اختلاف پر غصہ آتا ہے اعتراف پر خوشی نہیں ہوتی۔ انہوں نے پریس کلب کی ایک تقریب میں خاص طورپر مجھے ملا اور کہا تم جو کالموں میں لکھ رہے ہو میں وہ کروں گا۔ میں نے پاکستان کی بات کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ میانوالی کے لئے بھی کچھ کرے۔ کسی سیاستدان اور یہاں کے وزیر شذیر نے کچھ نہیں کیا۔ اقتدار سے بھی پہلے عمران نے میرے گاﺅں موسیٰ خیل میانوالی کے پاس پہاڑیوں میں نمل یونیورسٹی بنوائی۔ اسے میانوالی والوں کے لئے مفید ہونے کے لئے کئی سال لگیں گے۔ اس نے پشاور میں شوکت خانم ہسپتال بنوایا وہاں اس کی حکومت تھی۔
اب تو میانوالی میں بھی اس کی حکومت ہے۔ میانوالی والوں کے دلوں پر تو اس کی حکومت ہے ہی۔ یہاں ایک عام ہسپتال ہو اور بے شک ان کے والد کے حوالے سے ہو ”اکرام اللہ خان نیازی جنرل ہسپتال میانوالی،، میانوالی والے غریب لوگوں نے انہیں منتخب کیا تھا۔ جب وہ اکیلے قومی اسمبلی میں تھے۔ تب بھی میانوالی والوں کو یقین تھا کہ وہ اس ملک کے وزیراعظم بنیں گے۔ وزیراعظم پاکستان۔ مگر وہ منتخب تو میانوالی کی طرف سے ہوئے ہیں۔ حیرت ہے کہ روایت کے مطابق عمران خان کا کوئی رشتہ تقریب میں نہ تھا۔ انہوں نے میانوالی میں بھی فیملی سے قطع تعلق کر لیاتھا۔
عام طور پر وزیراعظم کی فیملی کا ہر فرد وزیراعظم بن جاتا ہے۔ اب سارا پاکستان عمران کی فیملی ہے مگر میں ان سے امید رکھوںگا کو وہ میانوالی کو خاص طور پریاد رکھیں گے۔
خاتون اول بشریٰ بی بی جب حلف برداری کی تقریب میں آئیں تو وہ ایک سفید رنگ کی چادر میں تھیں۔ میں ماڈرن زندگی کے حق میں ہوں مگر اپنی روایات کو یاد رکھنا چاہیے۔ بشریٰ بی بی اس وقت پاکستان میں سٹیٹس کے اعتبار سے بہت بڑی خاتون ہیں۔ انہوں نے بڑی خاتون ہونے کے حوالے سے کسی کمپلیکس کو رکاوٹ نہیں بننے دیا۔انہوں نے اعلان کیا کہ اب پاکستان سرخرو اور خوشحال ہوگا۔ بشری بی بی عمران کی حفاظت کریں۔ اس محفل میں ان کے جیسے سراپے والی ایک خاتون بھی نہ تھی۔ میرے دل میں ان کی عزت اور قدر و منزلت میں اضافہ ہوا، اگر پاکستان کی خاتون اول نے نسوانی جرا¿ت کا بہت بڑا مظاہرہ کیا ہے تو پھر جو خاتون آخر ہوگی وہ بھی ان کے نقش قدم پرچلے گی۔ تقریب کے بعد مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے سات آٹھ ڈشز تیار کی جا رہی تھیں۔ عمران نے اس پر برہمی کا اظہار کیا صرف ایک پیالی چائے اور پانی کے ایک گلاس کی اجازت دی گئی۔ وہ بھی غیر ملکی مہمانوںکے لئے اہتمام کیا گیا مقامی امیر کبیر خواتین و حضرات بھی اسی پراکتفا کریں یہ عمران خان کی سادگی کے لئے پہلا مظاہرہ ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی کو سپیکر پنجاب اسمبلی عمران خان نے نامزد کیا تھا یہ چوہدری صاحب کی سیاسی کریڈیبلٹی کی ایک مثال ہے۔ انہوں نے جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقے کے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ کے لئے نامزد کیا ہے اور لوگ حیران رہ گئے 2013 میں عمران نے خیبر پختون خواہ کے لئے پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ بنوایا تھا پنجاب میں حمزہ شہباز وزیراعلیٰ کے لئے امیدوار ہیں اور اپوزیشن لیڈر بھی وہی ہوں گے۔ خواجہ حسان سفید داڑھی اور شاندار شخصیت کے ساتھ حمزہ شہباز کے ساتھ کھڑے تھے۔ میں اس منظر کو دیکھ کر خوش ہوا میرے خیال میں بلاول بھٹو آصف زرداری اور شہباز شریف بھی تقریب میں ہوتے تو ان کی اپنی عزت افزائی ہوتی ۔مجھے اتفاق ہے سعدیہ سہیل سے کہ عمران بہترین وزیراعظم ہوں گے ۔ آج کا دن ہزار دنوں کا دن ہے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024