ایوان صدر کے جس ہال میں عمران خان نے ملک کے 22 ویں وزیراعظم کا حلف اٹھایااس ہال میں کئی حکومتوں کے بننے اور بگڑنے کے فیصلے ہوئے۔ اس ہال میں 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے بعد محمد خان جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔ صدر جنرل ضیاءالحق نے ان سے حلف لیا تھا۔لیکن جونیجو صاحب اور ان کی حکومت کو قریباً تین سال بعد 29 مئی 1988ءکو جنرل ضیاءالحق نے آئین کے آرٹیکل (2) 58 بی کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوئے گھر بھیج دیا تھا۔ محمد خان جونیجو چین اور جنوبی کوریا سے واپس آئے اور انہوں نے اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے اپنے دورے پر روشنی ڈالی۔ اس کے دو گھنٹے بعد جنرل ضیاءالحق نے آرمی ہا¶س میں پریس کانفرنس کر کے جونیجو حکومت کی برطرفی اور اسمبلیوں کے تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ آئین کے تحت جنرل ضیاءالحق نے عبوری حکومت بنا کر ازسرنو انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ لیکن قدرت نے انہیں اس کا موقع نہ دیا۔
1988ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اکثریت ملی تو صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو سے بطور وزیراعظم حلف لیا۔ بینظیر بھٹو کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ بینظیر بھٹو نے 1988ءکی حکومت کئی کمپرومائزز کرنے کے بعد بنائی تھی۔ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے پہلے انہوں نے رات کو راولپنڈی میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے ملاقات کی تھی میں اور میرے ساتھی اخبار نویس جنرل بیگ کے بنگلے کے سامنے کئی گھنٹے موجود رہے‘ جہاں بینظیر بھٹو ان سے بات چیت کر رہی تھیں۔ وزات عظمیٰ سنبھالنے کے بعد انہیں صاحبزادہ یعقوب خان کو وزیر خارجہ کے طور پر قبول کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ پنجاب جہاں پی پی پی نے اکثریت حاصل کی تھی بینظیر کو نہ ملا بلکہ وہاں مسلم لیگ نے نواز شریف کی قیادت میں حکومت بنائی۔
بینظیر بھٹو حکومت کو 6 اگست 1990ءکو جب صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کیا تو انہوں نے بینظیر حکومت کی برطرفی کے اعلان کے لئے جو پریس کانفرنس کی وہ بھی اسی ہال میں کی جس میں گزشتہ روز عمران خان نے حلف اٹھایا۔ اس ہال میں 1990ءمیں نواز شریف نے حلف اٹھایا۔ پھر 1993ءمیں نواز شریف کی برطرفی کا اعلان بھی اسی ہال میں ہوا۔ اس تاریخی ہال میں 1993ءمیں بینظیر بھٹو نے دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ 1996ءمیں صدر فاروق خان لغاری نے جنہیں پیپلز پارٹی نے ہی صدرمنتخب کیا تھا رات گئے اپنی حکومت کی برطرفی کا اعلان اسی ہال میں کیا تھا۔ اس حکومت کی برطرفی اور اس کے بعد فروری 1997ءکے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد نواز شریف نے بھی اسی ہال میں دوبارہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ 2008ءمیں یوسف رضا گیلانی اور 2013ءمیں نواز شریف نے تیسری مرتبہ بطور وزیراعظم اسی ہال میں حلف اٹھایا۔ اس عرصہ میں منتخب ہونے والے نگران وزرائے اعظم بھی اسی ہال میں اپنے عہدوں کا حلف اٹھاتے رہے۔
ملک کے بائیسویں وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب اور اس سے پہلے پی پی پی کے وزرائے اعظم کی حلف برداری کی تقریبوں میں اس اعتبار سے مماثلت محسوس ہوتی تھی کہ پی پی پی کے ادوار کی طرح پی ٹی آئی کے پرجوش کارکن اور لیڈر تقریب حلف برداری میں موجود تھے۔ بینظیر جب حلف اٹھانے آتی رہیں تو اس موقع پر جیالے کارکن ”جیوے بھٹو “ کے نعرے لگاتے تھے۔ عمران خان کی حلف برداری میں پی ٹی آئی والوں نے نعرے تو نہیں لگائے لیکن جب عمران خان ہال میں داخل ہوئے تو ان کے چاہنے والے کارکنوں نے کھڑے ہو کر دیر تک تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔ تالیوں کا یہ شور اس وقت کم ہوا جب تقریب کے منتظمین کی طرف سے اعلان ہوا کہ قومی ترانہ بجایا جا رہا ہے۔ مزید تالیاں نہ بجائی جائیں۔
عمران خان نے شیروانی پہن کر اپنے منصب کا حلف لیا۔ جب انہیں حلف کی عبارت پڑھنے کے لئے ریڈنگ گلاسز کی ضرورت پڑی تو انہوں نے عینک کی تلاش شروع کی تو عینک انہیں اپنی قمیض کی دائیں جیب سے ملی۔ عینک لگانے کے لئے انہیں قدرے دشواری پیش آئی۔ حلف کی عبارت پڑھتے ہوئے بھی انہیں دشواری ہوئی۔ خان صاحب کی انگریزی تو بہت اچھی ہے لیکن شاید اردو پڑھنے میں انہیں دقت ہوتی ہے۔ ایوان صدر کی تقریبات میں شرکاءکی عموماً چائے کے ساتھ سموسوں اور کئی دوسری مفرحات سے تواضع کی جاتی ہے لیکن گزشتہ روز چائے کے ساتھ ایوان صدر میں تیار کردہ بسکٹ مہمانوں کو پیش کئے گئے۔
بھارت سے آئے ہوئے کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو حلف برداری کی تقریب میں شرکاءکی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ ان کے ساتھ سیلفیاں اور تصویریں بنوانے والوں نے انہیں گھیرے رکھا۔ سدھو پنجابی زبان بول رہے تھے ان کے ساتھ کچھ اور مہمان بھی بھارت سے آئے تھے لیکن وہ پس منظر میں ہی رہے۔ صدر ممنون حسین اور وزیراعظم عمران خان حسب روایت تقریب کے مہمانوں سے ہینڈ شیک کے لئے بنائے گئے خصوصی انکلوژر میں کھڑے ہو کر حاضرین سے مصافحہ کرنا چاہتے تھے لیکن دھکم پیل اور ہجوم کے دبا¶ کے باعث یہ سلسلہ ادھورا ہی رہا۔ وزیراعظم عمران خان سیکیورٹی والوں کے حصار میں ایوان صدر سے وزیراعظم ہا¶س روانہ ہوئے۔ ان کی امکانی کابینہ کے وزراءشاہ محمود قریشی ‘ فواد چودھری‘ اسد عمر‘ رزاق دا¶د‘ شیخ رشید احمد‘ ایوان صدر میں موجود تھے۔ جہانگیر خان ترین بھی تھے۔ جو کچھ دیر بعد مہمانوں اور میڈیا نمائندوں سے گپ شپ کے بعد چلے گئے۔ میڈیا کی تمام تر کوششوں کے باوجود عمران خان نے ایوان صدر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت سے گریز کیا۔ خان صاحب کی بیگم صاحبہ جو سفید برقع میں ملبوس تھیں اور جنہوں نے سفید رنگ کی تسبیح بھی ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی تقریب میں بہت نمایاں تھیں۔ جب عمران خان حلف برداری کے لئے قدرے تاخیر سے آئے تو ایک صحافی نے کہا کہ بشریٰ بی بی نے ہال میں خان صاحب کے داخلے کے لئے جو وقت مقرر کیا ہے وہ اسی وقت آئیں گے اس سے پہلے وہ ہال میں نہیں آئیں گے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024