ہفتہ‘ 26 ذوالقعد 1438ھ‘ 19 اگست 2017
میاں صاحب اپنی عقلمندی کی وجہ سے یہ دن دیکھ رہے ہیں: خورشید شاہ
اپوزیشن لیڈر بالآخر اصل وجہ دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے ورنہ پوری قوم الجھن میں تھی کہ میاں صاحب کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے اگرچہ اس موضوع پر چودھری نثار علی خاں نے بھی تحقیق کی ہے لیکن ابھی تک انہوں نے حاصل تحقیق کی تفصیل نہیں بتائی۔ صرف اتنا بتایا ہے کہ میاں صاحب میری مانتے تو انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ شاہ صاحب اور چودھری صاحب دونوں ہی منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور سیاست کی الجھی گتھیاں سلجھانے کی بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ دونوں حضرات نے میاں صاحب پر پڑنے والی بپتا کی مختلف وجوہات بتائی ہیں۔ چنانچہ اب میاں صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کون تہ تک پہنچا ہے۔ شاید میاں صاحب خود یہ کبھی بھی نہ بتائیں کہ کس کی بات درست ہے، لیکن ہم ایسے سیدھے سادے لوگوں کو شاہ صاحب کی بات قرین صواب لگتی ہے۔ اس کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ میاں صاحب نااہلی کی تہمت سے متہم ہو کر ووٹ کا تقدس بحال کرنے کی مہم پر نکلے تو انہیں آئین سے دفعات 62، 63کا اخراج ضروری محسوس ہوا۔ آئین میں ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت ضروری ہے۔ جب تک پیپلزپارٹی مدد نہ کرے‘ آئین میں ترمیم ممکن نہیں لیکن پیپلزپارٹی نے صاف جواب دے دیا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے، پیپلزپارٹی، ڈاکٹر عاصم، ایان علی، اور رینجرز وغیرہ ایسے زخموں کو کیسے بھول سکتی ہے۔ میاں صاحب نے پیپلز پارٹی کی کسی قسم کی مدد نہیں کی۔ پیپلزپارٹی نے میثاق جمہوریت کے واسطے بھی دیئے، لیکن میاں صاحب نے سنی ان سنی کردی، اب اگر خورشید شاہ، میاں صاحب کی موجودہ مشکلات کو ان کی ”عقل مندی“ قرار دے رہے ہیں تو شائد درست ہی کہتے ہوں گے لیکن ہم اس میں اتنا اضافہ کرنا چاہیں گے کہ جسے آپ میاں صاحب کی ”عقل مندی“ قرار دے رہے ہیں، وہ ان کی قانون پسندی تھی۔ اگر وہ اس وجہ سے پیپلز پارٹی کی ہمدردیوں سے محروم ہیں تو یہ ان کی بے وقوفی نہیں قانون پسندی ہے کہ انہوں نے اقتدار کی پروا نہیں کی‘ لیکن قانون کی بالادستی پر حرف نہیں آنے دیا۔
٭٭٭٭٭٭
مردوں کے مقابلے کے لئے رضیہ سلطانہ بن گئی ہوں‘ گلالئی کی پگڑی پہن کر اسمبلی آمد
ہمارا خیال تھا کہ تحریک انصاف گلالئی کا منہ بند کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن لگتا ہے بات بڑھتی جا رہی ہے۔ کوئی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں لیکن بدھ کو گلالئی پگڑی پہن کر جب قومی اسمبلی میں اس وضع قطع کے ساتھ داخل ہو ئی اچھے خاصے جی دار لوگ تو سہم گئے کہ غیور قوم افغاناں‘ آج مختلف بلکہ جنگجویانہ موڈ میں تھی۔ اگرچہ اسکے ہاتھ میں بندوق نہیں تھی مگر دبدبہ دیدنی تھا۔ پھر اس نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ للکارتے ہوئے (یہ ظاہر ہے کہ کن کو للکار رہی تھی) کہاکہ رضیہ سلطانہ کی طرح مردوں کا مقابلہ کرنے آئی ہوں۔ خواتین کو مضبوط ہونا پڑے گا۔ زمانے کے انقلابات نہیں بلکہ ہمارے کاموں کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جب دوست اور خیرخواہ بلکہ جانثار جانی دشمن بن جاتے ہیں۔ گلالئی کا چار برس تک بڑے بڑے طرے باز سامنا کرنے سے کتراتے اور گھبراتے تھے۔ بات کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکتا تھا لیکن جب ہر معاملے کو اس نظر سے دیکھا جانے لگے کہ یہ چمک کا کرشمہ ہے تو پھر بات بگڑ جاتی ہے‘ کہیں ہتک عزت کے نوٹس بھگتنا پڑتے ہیں تو کہیں میڈیا میں بھد اڑتی دیکھنا پڑتی ہے۔ ہر معاملے کو جوش و جنوں سے نہیں حل کیا جا سکتا۔ عقل کا استعمال بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ بہرحال تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی بن گئی ہے۔ تحقیقات کی رپورٹ کسی ایک فریق کو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑے گی۔ تحریک کے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر کوئی بات تھی تو گلالئی چار سال تک کیوں چپ رہی۔ بات میں وزن تو ہے لیکن تحریک انصاف کے سربراہ ایسے دبنگ لیڈر پر اس قدر سوقیانہ الزام لگانا آسان نہیں۔ اگر تہہ سے کچھ نہ نکلا تو شاید چیئرمین صاحب کا زیادہ نقصان نہ ہو‘ گلالئی کا ککھ نہیں رہے گا۔
٭٭٭٭٭٭
تحریک انصاف نے وزیراعظم ہیلتھ انشورنس پروگرام کارڈز سے نواز شریف کی تصویر ہٹانے کے لئے پنجاب اسمبلی میں قرار داد جمع کرادی
اس پروگرام کو رواں مالی سال میں 14 نئے اضلاع میں شروع کرنے اور تین ارب روپے بجٹ جاری کرنے کی منظوری دی جاچکی ہے جس کے تحت پنجاب کے 12 اضلاع اور بلوچستان کے دو اضلاع میں عوام کو ہیلتھ کارڈز جاری کئے جائینگے۔ اس حد تک تو درست ہے کہ اس قسم کے فلاحی پروگراموں کو حکمران اپنے نام سے نہ منسوب کیا کریں۔ چونکہ یہ گزشتہ حکومتوں کا رواج چلا آرہا ہے ہے اس لئے اس پروگرام کے تحت جاری ہونیوالے ہیلتھ کارڈز پر سابق وزیراعظم کی تصویر لگادی گئی ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ان پروگراموں کو، سیاسی عصبیت سے دور رکھا جائے۔ پھر یہ سلسلہ ایسا ہے کہ کوئی حکومت بھی ہو، وہ اپنے لیڈر کا نام استعمال کرنے سے باز نہیں رہ سکتی۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت نے مرحومہ بے نظیر کے نام سے انکم سپورٹ پروگرام جاری کیا‘ جو مسلم لیگی حکومت کے دور میں بھی جاری ہے بلکہ اس پروگرام کو وسعت دی گئی ہے اور اس کیلئے رقم میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح پچھلے اداروں میں کئی منصوبوں کا افتتاح ہوا، جن پر وزیراعظم یا متعلقہ وزرائے اعظم کی تختیاں نصب ہوئیں۔ تحریک انصاف بھی اقتدار میں آسکتی ہے تو پھر کیا وہ اس لائن کو اختیار کریگی۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن حوصلہ، برداشت اور رواداری ایسی خوبیوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔
٭٭٭٭٭٭
شادی سے پہلے لڑکے، لڑکی سے رائے نہیں لی جاتی، 21 فیصد پاکستانیوں کی رائے
یہ بھی غنیمت ہے کہ اب کچھ تبدیلی آئی ہے ورنہ ایک دور تھا کہ لڑکی کو آخر دم تک پتہ نہیں چلتا تھا کہ اسے کس کے پلے باندھا جا رہا ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل تک یہ مناظر عام تھے کہ نکاح خواں لڑکی سے پوچھ رہا ہے ”قبول ہے“ اور دلہن کو مارے شرم و حیا یا ہوسکتا ہے کہ ناپسندیدگی کی وجہ سے چپ لگ جاتی تھی، جیسے ہونٹ ہی سل گئے ہوں۔ نکاح خواں کی بار بار تکرار کے باوجود بھی جواب نہ ملتا۔ تو اہل خانہ سے کوئی بزرگ اٹھتے اور اس کا سر پکڑ کر اسے اس طرح حرکت دیتے جیسے وہ قبول ہے‘ ہونے کا اشارہ دے رہی ہو۔یوں ایک بے زبان کو عمر بھر کیلئے اندھے گڑھے میں دھکیل دیا جاتا۔ اگر ہم عائلی زندگی کو جھگڑوں اور بدمزگی سے پاک کرنا چاہتے ہیں توہمیں اپنے رویوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ جو ان بچوں کو تجویز ضرور دیں، لیکن قبول ورد کا فیصلہ کرنا ان پر چھوڑ دیں۔ اس طرح یقیناً ہم بہت سی قباحتوں سے بچ سکتے ہیں۔