یومِ آزا دی پر ہونے والی تقریبات
آج وطنِ عزیز پاکستان کے تقریباً تمام شہری ایسے ہیں جو آزاد پیدا ہوئے ہیں۔ شایداِسی لیے آزادی کی قدر و قیمت ہم پاکستانیوں کے بے معنی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ عصرِ حاضر کے بیشتر پاکستانیوں کو اُن خطرات کا ادراک ہی نہیں جو آج پاکستان کو لاحق ہیں۔ اُنہیں بانیانِ پاکستان کے فرامین اور شہیدانِ پاکستان کی قربانیوں کا کوئی پاس نہیں ۔ ہماری نسلِ نو دن بدن پا کستان اور پاکستانیت سے دور ہو رہی ہے جبکہ دشمنانِ پاکستان آج پورے جاہ و جلال اور تمکنت کے ساتھ پاکستان کی نظریاتی ، جغرافیائی ، معاشی اساس پر کاری ضربیں لگا رہے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر، ون ویلنگ کرکے ، پرچمی لباس میں ملبوس پیشہ ور خواتین کو نچا کر،بلند آواز میں موسیقی بجا کر ، ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر ، چہروں پر پینٹ کر کے، قومی پرچم کی کھلم کھلا بے حرمتی کر کے، غرضیکہ ہر طرح کا طوفانِ بدتمیزی برپا کے کم و بیش 22 لاکھ شہدا اور بانیانِ پاکستان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے مگر اِن تقریبات میں سے بیشتر میں بھی یہی کچھ کیا جاتا ہے۔ کیا آج ہمارے نزدیک آزادی کا مقصد یہی کچھ رہ گیاہے؟ ؟ کیا پاکستان اِس لیے بنا ہے ؟؟کیا ہمارے اسلاف نے اِس لیے قربانیاں دی تھیں؟؟ ! ماضی میں جو ہو گیا سو ہو گیا ۔اب ہم پاکستانیوں کو اپنی اِس مجرمانہ غفلت کی روّش کو تبدیل کرنے کا تہیہ کرنا ہو گااور اِس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی سے ہم سب کی بقا اور سلامتی مشروط ہے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔۔!!
ایک لمحے کو تصور کیجئے کہ انگریز کے جانے کے بعد خدا نخواستہ پاکستان قائم نہ ہوا ہوتا بلکہ متحدہ ہندوستان ہی ہوتاتو ایسے میں مسلمانانِ ہند کے لیے آزادی کا کوئی مقصد تھا؟؟ یہ آزادی محض آقاؤں کی تبدیلی ہوتی یعنی انگریز کی بجائے ہندو مسلمانوں کے حکمران بن جاتے کیونکہ تعداد کے اعتبار سے ہندو برصغیر کی سب سے بڑی قوم تھے۔ اگر ایسا ہو جاتا تومسلمانانِ ہند سے اُس ہزار سالہ حکومت کا بدلہ لیا جاتا جو مسلمان ہندوستان پر کر چکے تھے۔ وہ بدلہ کیسا ہوتا۔۔؟ ؟ اُس کی ایک جھلک مسلمانانِ ہند کانگریسی وزارتوں کے دور میں دیکھ چکے تھے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمان آج تک دیکھ رہے ہیں۔ خدانخواستہ پاکستان معرضِ وجود میں نہ آتا تو ہندوہر شعبۂ زندگی میں مسلمانوں کی وہ حالت کر دیتے کہ پھرمسلمانانِ ہند کبھی الگ وطن حاصل نہ کر پاتے۔ آج کشمیری مسلمانوں سے بھارت جو سلوک روا رکھے ہوئے ہے اُس سے کئی گُنا بد تر سلوک تمام ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر ہوتا۔
پاکستان کے 70 ویں یومِ آزادی کے موقع پر 14اگست 2017 ء کو میر فاروق میرج ھال ٹیکسلا میں’’چاند میری زمیں پھول میر وطن‘‘ کے عنوان سے منعقد ایک با مقصد اور پر وقار تقریب میں ہم بھی موجود تھے۔ اِس تقریب کا انعقاد تحصیل پریس کلب ٹیکسلا نے ترویجِ فکرِ اقبالؒ کے لیے کام کرنے والی ایک معروف تنظیم مریدِ اقبال فاؤنڈیشن (انٹرنیشنل) پاکستان کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ تقریب کی نقابت ماہرِ تعلیم پرنسپل پنجاب کالج آف ایکسی لنس گرلز کیمپس واہ کینٹ محترمہ فاخرہ نوید کے ذمہ تھی۔ تلاوتِ کلامِ پاک حافظ وسیم احم رکن تحصیل پریس کلب ٹیکسلانے جبکہ نعتِ رسولِ مقبول اور کلامِ اقبال معروف نعت گو شاعر اور نائب صدر مریدِ اقبال لٹریری فورم جناب محمد عارف قادری نے پیش کیا۔ ایک خوبصورت ملی نغمے پر پنجاب کالج آف ایکسی لنس واہ کینٹ کی طالبات نے نہایت دلکش ٹیبلو پیش کیا۔ فراز علی خان اور صوفی سنگر نزاکت علی فریدی اور ساتھیوںنے ملی نغمے اور عارفانہ کلام گا کر حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔ اِس تقریب میںمختلف شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والی کم و بیش 40 شخصیات کو ایکسی لنس اور حسنِ کارکردگی کے ایوارڈز بھی دیے گئے۔ تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اِس میں ایک ایسے پاکستانی انجنئیر جناب محمد اسلم آزاد کو حاضرین سے متعارف کرایا گیا جنہوں نے انجن کے بغیر شمسی توانائی پر چلنے والی کار ایجاد کر کے پاکستان کانام روشن کیا۔ تحریکِ نوجوانانِ پاکستان کے سربراہ جناب عبداللہ گل تقریب میں بطور مہمانِ اعزاز شریک ہوئے اور اپنے خطاب میں نوجوانانِ پاکستان کو حقیقی پاکستانی بننے کی ترغیب دی۔ مہمانانِ خصوصی جناب محمد اسلم آزاد نے اپنی ایجاد پر مفصل روشنی ڈالی۔ اِس شاندار تقریب کی صدارت معروف ماہرِ اقبالیات اور میگزین ایڈیٹر نوائے وقت اسلام آباد جناب ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے کی جنہوں نے اپنے مدلل خطاب میں نوائے وقت اور مجید نظامی مرحوم کی وطن دوست پالیسی کی روشنی میں آزادی کی حقیقت ، دو قومی نظریے اور وطنِ عزیز کو درپیش حالیہ مسائل پر پُر اثر گفتگو کی۔ جناب ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی صاحب کو اُن کی خدمات کے اعتراف میں حسنِ کاکردگی کا ایوارڈ بھی پیش کیا گیا۔ اِس تقریب کے تمام مشمولات کا تذکرہ ہم نے اِس لیے ضروری سمجھا کہ قومی ایام پر اِسی قسم کی با مقصدتقریبات وقت کا تقاضا ہیںتاکہ شرکائے کرام کی فکری رہنمائی بھی ہو اور اُن کے اندر جذبہ ٔ حب الوطنی بھی پیدا ہو۔
آج ہمارا ازلی دشمن بھارت اپنے چند دیگر ہمنواؤں کے ہمراہ پاکستان کی نظریاتی ، جغرافیائی ، معاشی اساس کو خدا نخواستہ نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔ یہ لوگ ہماری جوہری قوت کے پاسبانوں یعنی مسلّح افواجِ پاکستان کے نظم و نسق کو عراق کی طرز پہ توڑ کر پاکستان کو خدانخواستہ جوہری قوت سے محروم کر نے کے درپے ہیں۔ وطنِ عزیز میںحالیہ دہشت گردی اور دیگر معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل اِسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک محبِ وطن پاکستانی کو اِن سازشوں کا نہ صرف ادراک کرنا ہوگا بلکہ اِن سازشی عناصر اور اِن کے ہمارے اندر موجود حواریوں کو پہچاننا ہو گا ۔ ہمیں دشمنانِ پاکستان کے عزائم کو اتفاق و اتحاد اور جذبۂ حب الوطنی سے ناکام بنانا ہو گا۔قومی ایام پر ہمیں اپنی روایات اور ماضی سے ہم آہنگ اور با مقصد پروگرام ترتیب دے کر پاکستانیت سے دور جاتی ہوئی نسلِ نو کی تربیت کرنا ہوگی۔ ہم سازشیوں اور دشمنانِ پاکستان کو خواہ وہ باہر سے ہوں یا ملکِ پاکستان کے اندر سے یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام کے ساتھ ہمیشہ قائم رہے گا اور اُن کے تمام خوابوں کی طرح یہ مکروہ خواب بھی چکنا چور ہوگا۔ اُنہیں انشاء اللہ ہزیمت ہی اُٹھانا پڑے گی کیونکہ پاکستان کی دوامی میں تاجدارِ کائنات ، حبیبِ کبریا ، حضرت محمد مصطفیٰؐ کی منشاء اور اللہ رب العزت کی مرضی شامل ہے۔ بقول مریدِ اقبال علامہ غلام فریدؔ نقشنبدی:۔
ہیں خُدا و مصطفیٰؐ دونوں نگہباں دیس کے
ملکِ پاکستان کھا سکتا نہیں دشمن سے مات
یہ رہا ہے اور رہے گا حشر تک اب سربلند
ہیں فریدؔ اِس میں بہت سی زندہ رہنے کی صفات