یادوں کی سوغات
مکرمی :معروف دانشور و سیاح پروفیسر سیّد بشیر حسین جعفری اپنی یادوں کو دیسی سفر ناموں میں محفوظ کرتے رہے، آپ نے یورپ ، امریکہ ، کینیڈا ، عرب امارات کی سیاحت کو علیحدہ رکھا ، جب یورپ گئے تو ، حیرت میں گم ہو ئے، جب اپنے ملک کے سفر کیے تو یادوں میں گم ہوئے توماضی کی طرف کھینچتے چلے گئے ، جعفری صاحب کا لاہور اور فیصل آباد کا مختصر سفر آپ کی نذر کر رہا ہوں ، لاہور فیصل آباد ، راولپنڈی ، اسلام آباد ، وہ شہر ہیں جہاں میری مستعار زندگی کا بڑا عرصہ گزرا ہے، اپنی کتاب زندہ باد میں ان شہروں اور یہاں کے احباب کا بھر پور تذکرہ کیا ہے، کتاب پائندہ باد کی چھپوائی کے بہانے سے لاہور کا مختصر سفر 25اپریل 2004ء کو لیفٹیننٹ کرنل سید سعادت حسین شاہ کے ساتھ کیا، رات کو ہم لوگ فیروز پور روڈ اور وحدت روڈ کو سنگم پر سردار حاجی امیر اکبر خان کے گھر پہنچے ، امیر اکبر خان کو میں 1945ء سے جانتا ہوں ، جب وہ پرائمری اپنے گاؤں چناٹ سے پا س کر کے سپیشل کلاس میں مڈل سکول دھیر کوٹ میں آ کر داخل ہوئے تب میں اس سکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا ، میں نے آٹھویں کا امتحان پاس کیا اور امیر اکبر خان ساتویں میں پہنچے تو 1947ء کے وسط میں جنگ آزادی شروع ہو گئی، امیر اکبر خان اور راقم دونوں نے ہاڑی گہل کے فوجی کیمپ سے معمولی فوجی تربیت رائفل اور وائر لیس حاصل کی اور محاذ جنگ پر چلے گئے، اردو بازار ، انار کلی ، نیلا گنبد کا چکر لگایا اور1957 ء سے 1958ء تک کی کالج اور یونیورسٹی تعلیم کے دور کو چشم تصور میں تلاش کیا ، انار کلی جو ایک منفرد تجارتی اور معاشرتی سرگرمیوں کا مرکز اپنی خوبصورتی اور فیشن کا نمائدہ تھا، اب یہ اپنا مقام کھوبیٹھا ، نئی آبادیاں اور مارکیٹیں دور دراز مختلف حصوں میں پھیل کر دعوت نظارہ دے رہی ہیں،ایک رات گلبرگ کے ملحق ڈیفنس کے حصہ میں اپنے دوست چوہدری محمد رفیق اختر کے ہاں قیام کیا ، فیصل آباد قیام کے پندرہ برسوں کو رفیق صاحب سے مل کر کھنگالا کئی لوگوں کی یاد آئی جو اب اس جہاں سے اُٹھ گئے ہیں ، اگلے روز چوہدری صاحب کے بیٹے راشد رفیق کے ساتھ کار میں لاہور سے فیصل آباد کا سفر کیا ، فیصل آباد میں اس بار اپنے بزرگ دوست مولانا تاج محمود کے بیٹے مولانا طارق محمود کے ہاں قیام کیا ، یہاں قیام کرنے سے یادوں کی سوغات ہر بار ملتی ہے، 1960ء سے 1975ء تک بلا ناغہ مولانا تاج محمود کے ہاں حاضری میرا معمول رہا ، اس دور کی بڑی بڑی شخصیات سے یہاں ملاقاتیںرہیں ، جن میں آغا شورش کاشمیری ، برگیڈئیر گلزار احمد ، سردار عبدالقیوم خان اور شیخ رشید احمد ، مولانا محمد علی جالندھری ، مولانا لعل حسین اختر ، مولانا مفتی محمود اور اس سطح کے علماء شامل تھے، صاحبزادہ طارق محمود نے اپنے والد گرامی رفقاء اور احباب سے تاحال رابطہ برقرار رکھا ہے، جامع مسجد ریلوے اسٹیشن اب مسجد محمود بھی کہلاتی ہے، علامہ حکیم سلطان احمد داؤدی فیصل آباد کی انتہائی معروف و معتبر شخصیت ہیں ، قائد اعظم ؒ کے جانثار تحریک پاکستان کے سپاہی علمی و ادبی محفلوں کی جان ہیں، 27اپریل کو داؤدی صاحب راقم اور صاحبزادہ طارق محمود ایک ہی گاڑی میں آگے چل پڑے ، تو مولانا فقیر محمد کا دفتر آگیا ، مولانا راقم کی واقفیت اور تعلق کو چوالس سال گزر گئے، آپ ممتاز شخصیت ہیں ، حاجی تہور حسین اور حاجی محمد بشیر سے ملاقات ہوئی، اس بار خواہش کے باوجود مولانا مجاہد الحسینی محترمہ ڈاکٹر صفیہ چوہدری محترم افضل احسن رندھاوا ، ، نعمت علی اختر بھٹی ، محترم نادر جاجوی ، طارق نورانی ، پروفیسر غلام رسول تنویر ، محترم اقبال فیروز سے ملاقات نہ ہو سکی، ظہیر قریشی ، پروفیسر سلیم بیتاب ، اختر سدیدی، مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف ، ڈاکٹر سید احسن زیدی ایسے نامور اہل قلم دوستوں کی وفات کے بعد فیصل آباد میں میرے لئے کشش کم ہو گئی ہے، میرے بہترین دوست چوہدری عبدالحق جالندھر ٹرانسپورٹ، ان کے چھوٹے بھائی خالق ، خلیل ،جبران،سینیئر ایڈووکیٹ مولانا تاج محمود ، جناب خلیق قریشی ، ریاست علی آزاد ، سید محمد وکیل جیلانی ، ایسے لوگ اب میرے منتظر نہیں ، یہی حقیقت ہے کہ ہر دم قافلہ اگلی منزل کو رواں دواں رہتا ہے ۔( سید شباحت حسین جعفری 03065057501راولپنڈی)