سیپ اساتذ ہ کی خدمات اور اُن کی مشکلات
سوشل ایکشن پروگرام کے تحت گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں ایسے اسکولز کا قیام کئی عرصہ پہلے عمل میں لایا گیا ہے تاکہ ہر گاوں کا بچہ بچہ تعلیم سے براہ راست مستفید ہو سکیں ۔اس وقت ان کے زیر اہتمام 360سکولوں میں 1464اساتذہ بچوں کوتعلیم سے ہمکنار کر رہے ہیں جب کہ ان اسکولوں میں زیر تعلیم طلباءو طالبات کی تعداد تقریبا58000سے زائد ہے ۔ان تمام طلباءوطالبات کو اساتذہ محنت اور لگن کے ساتھ پڑھا رہے ہیں اُن کے نصاب بھی گورنمنٹ نصاب کے عین مطابق ہے۔ساتھ ہی گورنمنٹ ا سکولوں کی طرح یہ اسکولز بھی نمایاں کارکردگی دکھا رہے ہیں۔اُن اساتذ کی مرہون منت آج گلگت بلتستان کے دور دراز علاقے کا بچہ بچہ بھی علم کے چراغ تلے بیٹھے ہوئے ہیں۔لیکن ان تمام تر خدمات کے باوجود ان اساتذ کوابھی تک مستقل طور پر تعینات نہیں کیا گیا ہے ،ساتھ ہی ماہانہ قلیل سیلری کی وجہ سے ان کا گھر چلنا بھی مشکل ہو گیا ہے اکثر اساتذ ‘ نوکری چھوڑکر گھریلو کاموں کی طرف توجہ دینے پر مجبور ہو گئے ہیں اپنے حقوق کیلئے انہوں نے 56دن مسلسل گلگت اور سکردو میں دھرنا بھی دیا 26جنوری 2015کو موجودہ چیف منسٹر گلگت بلتستان نے اُن تمام اساتذ کو مستقل کر کے ان کے تمام مطالبات مان کر حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی مگر یہ صرف یقین دہانی ہی ثابت ہو ئی اس پر عمل نہیں ہو سکا،بعد ازاں جون 2017میں ایک بار پھر یقین دہانی کرائی گئی کی سیپ اساتذہ کو ایک ماہ کے اند ر اندرمستقل کر کے ان کے تمام جائز مطالبات منظور کئے جائیں گے،لیکن اب تک اُن کے مطالبات منظور نہ ہونے کی وجہ سے اُن میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اُن کاموقف ہے کہ خداراہمارے ساتھ مذاق بند کیا جائے اور ہمارے جائز مطالبات مان لئے جائیں تاکہ ہماری مشکلات میں کمی آ سکیں اور قوم کے معماروں کو مستقل بنیادوں پر تعلیم کی فراہمی ممکن ہو سکیں۔(ممتاز عباس مظہر شگری،کراچی)