پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، عوامی لیگ اور عوامی تحریک کی طرف سے وزیراعظم ، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار ، میاں شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز اور وزیراعظم کے داماد کیپٹن ( ر) محمد صفدر کے خلاف نااہلی کیسز کی سماعت کے لئے چیف الیکشن کمشنر کے حکم سے 6 ستمبر 2016ء کی تاریخ مقرر کردی ہے ‘‘۔ اِس موقع پر مجھے تو 6 ستمبر 1965ء کی یاد آ رہی ہے ۔ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کِیا تھا اور جسے پاک فوج نے ناکام بنا دِیا تھا ۔ ہم 6 ستمبر کو ’’ یومِ دفاع پاکستان‘‘ کے طور پر مناتے ہیں لیکن اب اِسے "National Day" ( قومی دِن) کے طور پر نہیں مناتے کیونکہ 6 ستمبر کو قومی تعطیل نہیں ہوتی ۔ کیوں نہیں ہوتی؟۔ سابقہ اورموجودہ حکمرانوں کو عِلم ہوگا ۔ 6 ستمبر 1965ء کو مَیں 28 سال 8 ماہ اور کچھ دِن کا تھا ۔ مَیں صحافی تھا اور شاعر بھی ۔ مَیں نے وطنِ عزیز کے غازیوں اور شہیدوں کی شان میں مضامین لِکھے اور نغمے بھی۔ میرا ایک نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا اور ایک محکمہ ’’ تعلقاتِ عامہ مغربی پاکستان‘‘ کی شائع کردہ ضخیم کتاب میں شامل کِیا گیا جِس میں دوسرے بڑے اور چھوٹے شاعروں کے نغمے شائع ہُوئے تھے ۔
اگر 6 ستمبر کو 2016ء کو قومی تعطیل ہوتی تو چیف الیکشن کمشنر صاحب کسی اور دِن جناب وزیراعظم اور اُن کے خاندان کے افراد کی نا اہلی کے ریفرنسز کی سماعت شروع کرنے کے نوٹسز جاری کرتے ۔ وزیراعظم نواز شریف کی تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1949ء ہے ۔ میاں شہباز شریف کی 23ستمبر 1951ء ، جناب اسحاق ڈار کی 13 مئی 1950ء کیپٹن محمد صفدر کی 19 جنوری 1964 ہے اور میاں حمزہ شہباز تو 5 ستمبر 1974ء کو پیدا ہُوئے تھے۔گویا اِن سب قائدین نے بڑے ہو کر ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بارے میں پڑھا یا اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے سُنا ہوگا؟۔
پاکستان قائم ہُوا تو مَیں 11 سال کا تھا ۔ تحریکِ پاکستان کے واقعات مَیں نے اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے سُنے اور پڑھے اور اب تک سُنتا اور پڑھتا چلا آ رہا ہُوں لیکن ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا تو مَیں عینی شاہد ہُوں اور 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کے دولخت ہونے کا بھی ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’ پاکستان کو دولخت کرانے کے ذمہ دار ہمارے بعض جرنیل اور سیاستدان ہیں اور اب اُنہی کا فرض ہے کہ وہ ’’ بنگلہ دیش‘‘ ( مشرقی پاکستان) اور مغربی پاکستان کو پہلے کی طرح متحدہ پاکستان بنا دیں‘‘۔
6 ستمبر 1965ء کو وزیراعظم نواز شریف کی عمر 15 سال اور کچھ مہینے تھی اور 25 مئی 2014ء کو 64 سال اور 5 ماہ ۔ جب وزیراعظم صاحب 26 مئی کو نو منتخب بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی کی دعوت پر اُن کی حلفِ وفاداری کی تقریب میں شرکت کے لئے 26 مئی کو دہلی جانے کا فیصلہ ( اعلان بھی ) کر چُکے تھے ۔ ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میں نظریۂ پاکستان فورمز کے سالانہ اجلاس خطاب کرتے ہُوئے جنابِ نظامی نے کہا تھا کہ ’’ ہمیں اپنے اندر وطنِ عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی نگہبانی کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے بلکہ اپنی صفوں میں موجود اُن بھارتی شردھالوئوں ( عقیدت مندوں ) پر بھی کڑی نظر رکھنا ہوگی جو مسئلہ کشمیر کو پسِ پُشت ڈال کر ہمارے ازلی دشمن بھارت سے دوستی اور تجارت کا راگ الاپ رہے ہیں ‘‘۔
شریف برادران کی سیاست کو پروان چڑھانے والے جنابِ نظامی نے اُن سے بہت سی توقعات وابستہ کرلِیں تھیں ۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے اور 6 ستمبر 2016ء کو شریف برادران اور اُن کے خاندان کے دوسرے افراد کی نا اہلی کے نوٹسز کی خبر پڑھتے تو کیا سوچتے؟۔ ہجرت کے بعد میرا تعلق سرگودھا سے ہُوا ۔ پیدائش کے لحاظ سے شریف برادران کا لاہور سے ہے ، وزارتِ دفاع کے اضافی چارج کے حامل خواجہ محمد آصف کا سیالکوٹ سے ۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد صدر محمد ایوب خان نے سرگودھا ، لاہور اور سیالکوٹ کو ’’ہلالِ استقلال ‘‘ کا اعزاز دِیا تھا ۔ خواجہ صاحب بھی اُس وقت 16 سال کے تھے ۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے وقت جناب ذالفقار علی بھٹو ہمارے وزیر خارجہ تھے اور اُنہوں نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنی تقریروں سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عالمی برادری کے ضمیر کو جگا دِیا تھا۔ صدر ایوب خان خود وزیرِ دفاع تھے لیکن اِن دِنوں ہمارا کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی باقاعدہ وزیرِ دفاع۔
ایک دَور مَیں صدر جنرل ضیاء اُلحق نے سِویلین میر علی احمد خان تالپور کو وزیرِ دفاع بنا رکھا تھا ۔ جنرل صاحب نے لندن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کِیا تو ایک صحافی نے مِیر صاحب سے کہا کہ ’’ آپ پاکستان کے وزیر دفاع ہیں ۔ آپ بھی کچھ کہیں؟‘‘ تو تالپور صاحب نے کہا کہ ’’ جو کچھ پوچھنا ہے صدر صاحب سے پوچھیں ۔ مجھے تو اِنہوں نے اِس لئے وزیر دفاع بنایا ہے کہ ’’ میری بڑی بڑی مُوچھیں ہیں!‘‘ وزیراعظم نواز شریف نے خواجہ محمد آصف کو اضافی (فالتو ) وزیر دفاع کیوں بنایا ؟۔ کیا اِس لئے کہ خواجہ صاحب گلِیں باتِیں تو وزیراعظم صاحب کا بڑے تِیکھے انداز میں دفاع کِیا کرتے ہیں ۔ خواجہ صاحب اُس وقت بہت چھوٹے ہونگے جب پنجابی فلم ’’ چن وے‘‘ میں فلم کی ہیروئن ملکۂ ترنم نور جہاں نے یہ گیت گایا تھا کہ؎
’’ تیرے مُکھڑے تے کالا کالا تِل وے
میرا کڈّھ کے لَے گیا دِل وے
وے مُنڈیا ، سیالکوٹِیا، مُنڈیا سیالکوٹِیا‘‘
مجھے ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران سیالکوٹ کے قصبہ ’’ چوِنڈہ‘‘ میں ٹینکوں کی لڑائی بہت یاد آتی ہے جب پاک فوج کے ہمارے غازیوں اور شہیدوں نے بھارتی ٹینکوں اور ٹینک سواروں کو پاک سر زمین کی طرف بڑھنے سے روک دِیا تھا۔ انہی دِنوں روزنامہ ’’ شُعلہ‘‘ سرگودھا کے ایڈیٹر شاعر اور شُعلہ بیان مقرر مِیر عبداُلرشید اشکؔ نے مجھے اور میرے جونیئر ساتھی صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’’ چوِنڈہ‘‘ دراصل ’’ باجوہ‘‘ ( جاٹوں) نے بسایا تھا اور اصل میں اُس کا نام ’’چِونڈہ باجوہ‘‘ ہے ۔ 5/4 سال پہلے محترمہ مبُشرہ نگہت باجوہ وفاقی ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات کے عہدے سے ریٹائر ہُوئیں تو مَیں نے انہیں بتایا تو بولِیں ’’ مجھے معلوم ہے ۔ میرے ابو جی نے مجھے لڑکپن میں بتایا تھا ‘‘۔
مُبشرہ باجوہ کے ابُوّ جی چودھری غلام مرتضیٰ باجوہ ستمبر 1965ء میں سرگودھا میں مجسٹریٹ تھے اور سیکرٹری اوقاف پنجاب کی حیثیت سے ریٹائر ہُوئے ۔ انہیں اسلامی تاریخ پر بہت عبور تھا ۔ مَیں نے اُن سے بہت کچھ سِیکھا۔ ’’ 6 ستمبر کی پاک بھارت جنگ کو جِن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے غازیوں اور شہیدوں کی زیارت کی ہے ۔ اُن کے ’’6 ستمبر ‘‘ اور6 ستمبر 2016ء کو چیف الیکشن کمِشن میں وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان کے دوسرے افراد کی نااہلی کے ریفرنسز کی سماعت کے بعد شریف خاندان کے عقیدت مندوں کا 6ستمبر مختلف ہوگا ۔ مجھے تو 6 ستمبر 1965ء کی تاریخ یاد ہے اور مَیں اپنے بچوں اور اُن کے بچوں کو وہی تاریخ پڑھاتا رہوں گا ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024