میں کل میو ہسپتال کے وی آئی پی 6 نمبر میں تھا۔ میو ہسپتال پاکستان کا سب سے بڑا فلاحی سرکاری ہسپتال ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ مجھے لاہور تین وجہ سے پسند ہے۔ یہاں داتا دربار ہے۔ دربار تو یہی ہے۔ سب سے بڑا دربار دربار نبویؐ ہے۔ یہاں میرے کرم فرما ڈائریکٹر جنرل اوقاف سید طاہر رضا بخاری اور پیر بھائی خطیب داتا مسجد عارف سیالوی ہیں۔ دوسرے نمبر پر یہاں میو ہسپتال ہے۔ پاکستان میں کہیں کوئی بیمار لاعلاج ہو جائے تو کہتے ہیں اسے میو ہسپتال لے جائو۔ یہاں آج کل ایم ایس ڈاکٹر امجد شہزاد ہیں۔ بہت دردمند آدمی ہیں مگر شریف آدمی ہیں۔ حکم دیتے رہتے ہیں اور انہیں اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس پر عمل ہوا ہے کہ نہیں ہوا۔
میں دو دن میو ہسپتال میں پڑا رہا۔ ایک ڈاکٹر صاحب آئے وہ اس قدر غیرسنجیدہ اور لاپرواہ آدمی تھے کہ مجھے چیک بھی نہ کیا۔ مجھے جانتے تھے۔ بس حال احوال پوچھ کر چلے گئے۔ کوئی ڈاکٹر نبیل تھے۔ ہر آدھے گھنٹے کے بعد کہتے کہ میں ابھی آپ کو گھر بھیج دوں گا۔
صرف نرسیں بہت تعداد میں آتی رہیں۔ وہ بیٹیوں کی طرح خدمت کرتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ سیدھی جنت میں جائیں گی۔ انہوں نے اتنی بار میرا بلڈ پریشر چیک کیا کہ اب شاید ساری عمر میرا خون بہت شرافت سے میری رگوں میں گردش کرتا رہے گا۔ ایک دفعہ ایم ایس ڈاکٹر امجد شہزاد بھی آئے۔ تھوڑی دیر میرے ساتھ گپ شپ کر کے چلے گئے۔
ڈاکٹر عدنان شاہد جو اے وی ایچ وارڈ کے انچارج ہیں بہت دوست آدمی ہیں۔ انہوں نے دوائیاں نسخے پہ لکھیں مگر نجانے وہ کس کو ملیں۔
میں نے لاہور کی تیسری پسندیدہ بلڈنگ تو بتائی نہیں ۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور ہے جہاں میں پڑھا ہوں۔ اگر میرا پیارا ابا مجھے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل نہ کراتا تو میں کہیں میانوالی میں مر کھپ گیا ہوتا۔ میں کچھ بھی نہیں ہوں مگر جو کچھ بھی ہوں گورنمنٹ کالج لاہور کی وجہ سے ہوں۔ یہاں میں ’’راوی‘‘ کا ایڈیٹر ہوا۔ مجھے 1969ء کا رول آف آنرز ملا جو سال میں ایک طالب علم آدمی کو ملتا ہے۔ سکالر سٹوڈنٹ اشرف عظیم نے کہا تھا اگر آپ پرنسپل ہیں تو میں مین آف پرنسپل ہوں جسے ہمارے راوین دوست صابر صاحب نے بہت پسند کیا تھا۔
میو ہسپتال میں دو دن بڑے یادگار دن تھے۔ صرف نرسیں ہیں جو ہر وقت خدمت پر آمادہ رہتی ہیں۔ ان کے آنے سے تسلی ہو جاتی تھی وہ بیٹیوں کی طرح خدمت کا حق ادا کر دیتی ہیں۔ ایک سینئر نرس بھی ہمیشہ میرے پاس آتی رہیں۔ وہ بڑی بہنوں کی طرح ہے۔ اس کی دائمی مسکراہٹ میں ایک دوا چھپی ہوئی ہے جو مریضوں کے لیے اکسیر کا کام دیتی ہے۔
ایک سینئر نرس مجیدہ بی بی بھی بار بار آئی۔ اس کے شوہر شاعر ہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے فون کریں۔ وہ میرے لیے تازہ پھول لے کے آئی۔ اس طرح میرا اداس کمرہ مہک اٹھا۔ میں اس کی یہ اپنائیت کبھی نہیں بھولوں گا۔ نرسیں اس دوزخ بنتی ہوئی زمین پر جنت کی باشندہ ہیں ان میں اتنا تحمل اور تدبر ہے۔ وہ ہر مریض کی دلجوئی کرتی ہیں میرے بابا یہاں داخل ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نرسیں جنت میں جس دروازے سے چاہیں داخل ہو سکتی ہیں۔ نرسوں کے لیے دل میں احترام پیدا کرنا چاہیے۔ انہیں بے پناہ عزت دینی چاہیے۔ طیبہ اعجاز اور ذاکرہ بی بی میرے پاس دیر تک بیٹھی رہیں۔ اس گپ شپ سے مجھے بہت آرام ملا۔ ایک اچھی لیڈی ڈاکٹر میرے پاس آئی اور گپ شپ کرتی رہی اور میرا دل بہل گیا۔
نوائے وقت سے برادر کالم نگار سعید آسی اور میرے بہت پرانے محسن دوست اور انتہائی اچھے انسان جس کے لیے دل میں پھول ہی پھول کھلتے ہیں۔ برادرم شریف کیانی میرے پاس تشریف لائے اور دیر تک بیٹھے رہے۔ پہلا موقع تھا کہ میری طبیعت سنبھل گئی۔ آسی صاحب حج پر جا رہے ہیں اور شریف کیانی اس بات پر عمل کرتے ہیں:
دل بدست آور کہ حج اکبر است
میں اسی شام میو ہسپتال سے گھر آ گیا۔ گھر میں میرا پوتا محمد مصطفی اور پوتی میرے استقبال کے لیے دروازے پر کھڑے تھے۔ انہیں دیکھ کے میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔ میں نے تشکر کے احساس سے درود شریف پڑھا اور دونوں کو دم کیا۔
آج ہی صبح میرے دوست نامور شاعر چیف ایڈیٹر ’’حسن قلم‘‘ اور چیف ایگزیکٹو حسن قلم پبلی کیشنز برادرم وحید احمد خان نے مجھے اپنا شعری مجموعہ ’’خوشبو تیرے نام‘‘ بھجوایا ہے اتنا خوبصورت ٹائٹل اس سے زیادہ خوبصورت بیک ٹائٹل۔ میرا اعزاز ہے کہ میرا فلیپ بھی کتاب میں موجود ہے۔ ’’وحید احمد زمان ایک شاندار شاعر ہے۔ وہ شعر و ادب کے کئی راستوں پر چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہر کہیں اس کی موجودگی کا منظر خوبصورت اور قابل دید ہے۔ وہ بے مثال آدمی ہے۔ وحید احمد زمان نے گوجرانوالہ سے اپنے ادبی شعری سفر کا آغاز کیا اور وہ آغاز کے راز کو جانتا ہے۔ اس راز کو مزید منکشف کرنے کے لیے وہ لاہور چلا آیا۔ یہاں کئی راز اس کے منتظر تھے۔‘‘
جانے کیا ڈھونڈ رہی تھی وہ مری آنکھوں میں
میں نے پوچھا ہی نہیں شہر کی ویرانی سے
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38