خط لکھنے کا رواج نہیں رہا۔لوگ اب ای میل یا ایس ایم ایس پر ہی بات چیت کرتے رہتے ہیں مگر خط لکھنے اور جواب دینے کارواج ملکوں کے درمیان آج بھی موجود ہے پرانے زمانے میں یہ سلسلہ کبوتروں کے ذریعے بھی ہوا کرتا تھا پاکستان کے ساتھ بھارت والے ’’من پسند‘‘ تعلقات چاہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ وہ یا کلچرل معاملات کو بڑھانا پسند کرتے ہیں یا پھر اپنے آلو ٹماٹر بیچنا پسند کرتے ہیں اور اپنی فلیمیوں وغیرہ میں سرحد کی بات بھی کرتے ہیں کہ یہ ایک دیوار ہے لیکن کوئی کبوتر بھی اپنی پرواز کرتے کرتے لاہور سے امرتسر اُڑ کر چلا جائے تو واویلا مچا دیا جاتا ہے حال ہی میں اسی قسم کے دوغلے پن کااظہار کیا گیا ہے یعینی بظاہر یہ سنا جارہا ہے کہ پاکستان بھارت مشروط مذاکرات پر راضی ہوچکے ہیں اور بعض اوقات تو اسی بات پر ہی مسرتوں کے شادیانے بجاے جانے لگتے ہیں کہ شاید اب مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر بات ہو لیکن مودی سرکار کے ہوتے ہوئے صاف نیت اور اچھے ارادے کی توقع کرنا بے کار ہے کیونکہ ایک طرف وہ بلوچستان کے معاملہ میں ہرزہ سرائی کرنا شروع ہوچکے ہیں اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے مظالم پر آنکھیں بند کیے ہوئے چشم تصور میں اسے بھارت کا اٹوٹ انگ بنائے بیٹھے ہیں اور اب مزاکرات پر آمادگی میں بھی صورتحال یہ نظر آرہی ہے کہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کی موجودگی ،کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم اور یو این او کی قرار دادوں کے مطابق کہ کشمیر کے متنازعہ مسئلہ کے حل کیلئے دونوں ممالک بات چیت کرینگے اسکے برعکس ان ساری حقیقتوں سے نظریں چرا کر لفظ دہشت گردی کو اچھالا جائے گا کل بھی بھاری خارجہ سیکرٹری اور ڈیفنس منسٹر کے علاوہ ان کے وزیر اطلاعات حسن الحق اینو نے بھی مودی کو خوش کرنے والے بیانات کا سلسلہ جاری رکھا بھارت کے وزیر اطلاعات کے نام کے ساتھ اینو کا مطلب مجھے معلوم نہیں مگر ہمارے ہاں ہاضمہ درست کرنے کی ایک دوائی اسی نام سے مشہور ہے مگر یہ دوائی حسن الحق اینو کے پیٹ میں پڑنے والے مروڑ کا علاج نہیں کیونکہ ان کا مرض معصوم سی دوائی کے علاج سے بہت بڑا ہے کیونکہ ان ساروں کی سوچ میں یا تو خناس ہے یا تو یہ لوگ اپنے مظالم کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے اور ضدی پن کا شکار ہوکر تاریخ کے ماتھے کی سیاہی میں اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا نہیں صرف دو ملکوں کا مسئلہ ہے اگر دنیا کے باشعور لوگ دنیا بھر کے وسائل پر تو نظر رکھے گے مگر انسانی مسائل کے حل پر توجہ نہیں دینگے تو یہی صورتحال رہے گی جو نظر آرہی ہے مودی سرکار اگر ڈاکٹر مجید نظامی کی ہدایت پر لکھی گئی میری کتاب کشمیر 2014ء پڑھ لے تو انکی سوچ میں تبدیلی آسکتی ہے اس کتاب میں ایک موصنف ولیم ڈبلیو بیکر کی کتاب ’’کشمیر وادی حسرت اور موت‘‘کا ذکر ہے یہ کتاب 1994میں شائع ہوئی تھی اس کتاب کے ٹائٹل پر نیلے آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں کے آگے سر سبز پہاڑوں کے دامن میں پھیلے پھولوں کی چادر پر ایک لاش رکھی ہوئی ہے اس لاش کا جسم لوہے کی طرح کا مضبوط دکھائی دیتا ہے اگلے صفحہ پر اس شخص کا تعارف لکھا ہوا ہے ’’مقبوضہ کشمیر میں امراض قلب کے واحد سرجن ڈاکٹر عبدالاحد جو وادی میں بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف توانا آواز تھے‘‘ڈبلیو بیکر کو یکم اپریل 1993کو شہید کردیا گیا تھا مصنف نے اپنی تحریر میں لکھا تھا’’اپنی بقاء اور خود ارادیت کی خاطر موت و حیات کی کشمکش میں جکڑی وادی آج موت کی وادی بن چکی ہے 13ملین کی آبادی میں بنیادی طور پر مسلمان بستے ہیں یہ مسلمان روزانہ بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں کشمیری قوم نے جس ننگی جارحیت اور ظلم و ستم اور تعصب کو بھارتی قبضہ کے تحت گزارہ ہے اور پچھلے کئی برسوں سے برداشت کیا ہے ان کا موازنہ’’دنیائے جدید‘‘کے کسی بھی خطے کا کوئی تصادم نہیں کرسکتا ‘‘مودی سرکاری ہمیں یقیناً اپنا دشمن سمجھتے ہوں گے مگر بعض حقیقتوں کا اگر تعصب کی عینک اتار کر مطالعہ کریں تو مرتضٰی برلاس کے اس شعر کے مطابق اتنا ضرور مان لے گے خدا لگتی کہہ رہے ہیں
مرا دشمن بھی یہ کہتا ہے کہ ہر بات مری
تلخ ہے بے شک مگر بات خدا لگتی ہے
اور بات خدا لگتی تو امریکہ کیلئے بھی ہے جب ’’ٹوین ٹاور‘‘گرتے ہیں تو پوری دنیا میں انکے گرنے کا ملبہ پھیل جاتا ہے مگر کشمیری قوم کا اتنا بڑا انسانی المیہ دو ممالک تک محدود سمجھا جاتاہے۔امریکہ کے ہی جارج ایف کینڈی نے کہا تھا’’آج دنیا میں موثر ترین طاقت نہ تو کمیونزم ہے اور نہ سرمایہ داری ہے لیکن یہ طاقت آزاد اور خومختار ہونے کی دائمی خواہش ہے ‘‘۔ امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے 27دسمبر 1993کو لکھا تھا ’’ہم سب کو انسانی حقوق سے متعلق اپنی اپنی پالیسیوں پر بغور نظر رکھی چاہیے ہم ایسی تبدیلیاں رونما کرسکتے ہیں جوکہ اقوام متحدہ کے بانیوں نے رائج کی تھی مجھے کشمیر میں امن کی راہ ہموار کرنے میں آپ اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں خوشی ہوگی ‘‘ اس سے پہلے امریکہ کے صدر ڈگلس نے بھی کہا تھا کہ انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کے خاتمے اور کشمیری راہنماؤں کے ساتھ معاہدہ خودمختاری پر گفتگو کرنے کیلئے زور دیا جائے۔برٹر سینڈر رسل نے کہا تھا ’’جب ہم دیکھتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستانی حکومت کا بین الاقوامی معاملات میں بلند آہنگ آئیڈ یلزم دم توڑ دیتا ہے تو مایوسی کے احساس سے بچنا مشکل ہوجاتا ہے‘‘ مایوسی تو کل بھارت کے وزیر دفہ سے بھی ہوئی جنہوں نے کہا کہ پاکستان جانا دوزخ جانے کے برابر ہے انہوں نے سچ کہا کیونکہ ظلم کی حمایت کرنے والے ہر رویے کیلئے پاکستان جیسا ملک دوزخ کی طرح کا ہے و خود امن و سکون اور محبت کا متلاشی ہے لیکن اس بیان پر بھارت کیساتھ دوستی بڑھانے والوں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے کہ بھارت بھی ان کیلئے جنت نہیں ہے کیونکہ وہ جنت نظیر کشمیر کی وادی کو لہو لہان کرنے سے باز نہیں آرہا اور وہ اس بات کو بھی تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں کہ مزاکرات کی آڑ میں دوغلہ پن نہیں کرنا چاہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024