پیپلز پارٹی کے معتبر سیاستدان قاسم ضیاء کے ساتھ ایک پرانی دوستی کی نئی لہر میرے دل میں بے کنار ہوئی۔ نیب کے لوگوں نے انہیں کسی کرپشن کے معاملے میں گرفتار کیا ہے۔ میں نے شجاع خانزادہ کے ساتھ ایک نئے تعلق کی کوئی پرانی کسک اپنے اندر تڑپتے ہوئے محسوس کی۔ انہیں پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران بھی محبت سے یاد کر رہے تھے۔ وہاں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے نامزد وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر حسن شاہ بھی موجود تھے اور گورنمنٹ کالج کی تاریخ کو زندہ کرنے کا ایک عزم ان کی شخصیت میں تھا وہ دیکھنے میں اچھے لگے اور اس لئے بھی کہ انہوں نے سب سے پہلے ڈاکٹر مجاہد کامران کے ساتھ اپنی رفاقتوں کا ذکر کیا۔
مرحوم اور ’’شہید‘‘ جنرل حمید گل کے لئے میرے دردمندانہ کالم کا ذکر ہوا تو ان کے جیسے ان کے بیٹے عبداللہ گل کا بھی خیال آیا وہ اپنے عظیم والد کی ساری وراثتوں کو دوبارہ تلاش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جنرل صاحب عبداللہ گل کو اپنا جانشین خیال کرتے تھے۔ ہری پور میں تحریک انصاف کی شکست کو ریحام خان کی ناکامی سمجھا جا رہا ہے۔ کم از کم عمران خان کے اس بیان سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ اب اسے پارٹی کی کوئی ذمہ داری نہیں دی جائے گی مگر ریحام خان نے اپنی ذمہ داری خود بیان کر دی ہے کہ میں عمران خان کے مشن کو پاکستان کے لئے بہت اہم سمجھتی ہوں۔
بات قاسم ضیاء کی گرفتاری سے آغاز ہوئی تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ پیپلز پارٹی کے بہت معروف اور کنفرم لوگ کرپٹ لوگوں کی فہرست میں نمایاں ہیں۔ ان کے نام نیب بھی سامنے لاتی رہتی ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری اور ان کے ’’خاص دوست‘‘ ہیں۔ کئی مخدوم صاحبان ہیں۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی ، مخدوم امین فہیم اور کئی خادم بھی؟ جن کا تعلق پیپلز پارٹی کی سیاسی ’’حلیف اور حریف‘‘ پارٹی سے ہے۔
آج تک کسی آدمی کو نیب نے سزا دی ہے؟ سنا ہے نیب والوں نے کچھ روپے برآمد کر لئے ہیں اور وہ لوٹ مار جو برآمد کی گئی ہے وہ کہاں ہے؟ میں نے اس تذکرے میں آغاز اور انجام کا ذکر کیا تھا دونوں ایک جیسے ہیں۔
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے ’’سیاست‘‘ کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
قاسم ضیاء کی اس طرح آسانی سے گرفتاری کا افسوس ہوا۔
قاسم ضیاء سے میرا کوئی خاص رابطہ نہیں ہے مگر جب وہ صدر مشرف کے زمانے میں پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر تھے اور ان کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ تھے تب رانا صاحب کے ساتھ فیصل آباد میں بڑی زیادتی ہوئی تھی۔ نجانے ان کا قصور کیا تھا کہ ان کے ساتھ قصور والے بچوں جیسا سلوک ہوا۔ ہم تب ان کے ساتھ تھے اب بھی ان کے ساتھ زیادتی ہو تو ان کے ساتھ ہیں۔ قصور میں بچوں کے ساتھ درندگی کے حوالے سے جو بیان انہوں نے دیا ہے وہ افسوسناک ہے۔ وہ قصور کو رینجرز کے حوالے کرنے کا اعلان کریں اور یہ مقدمہ فوجی عدالت کے سپرد کیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ فیصل آباد میں رانا صاحب کے ساتھ زیادتی پر قاسم ضیاء نے واضح سٹینڈ لیا تھا اور ہم سب نے مل کر احتجاج کیا تھا۔ تب رانا صاحب کی جانثاری اور وفاداری نے ہمیں بہت متاثر کیا۔ وفاداری کے مناظر تو اب بھی ان کے حوالے سے نظر آ جاتے ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہیں دوبارہ وزیر بنا دیا گیا ہے نجانے کیوں وزارت داخلہ شجاع خانزادہ کے پاس رہنے دی گئی تھی؟ ان کا جانشین تو برادرم رانا مشہود کو بنایا گیا تھا۔ رانا صاحب وزیر شذیر ہونے کو بہت بڑی جاگیر سمجھتے ہیں مگر سیاست کی جاگیردار فیملی تو یہاں صرف ایک ہے باقی سب مزارع ہیں؟رانا صاحب دوستوں پر اپنی ’’طاقت‘‘ کا رعب جمائیں مگر محتاط بھی رہیں۔
قاسم ضیاء کو اپنے دور میں پیپلز پارٹی نے نظرانداز کیا۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) اپنے معاملات کو خوب جانتی ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ قاسم ضیاء نے دوسرے کئی جیالوں کی طرح کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ردعمل تو سجاد بخاری اور منور انجم نے بھی نہیں دیا اور وہ دونوں پیپلز پارٹی کے ساتھ بہت مخلص ہیں۔ منیر احمد خاں مستعفی ہو گئے جینوئن سیاسی آدمی غلام عباس ناراض ہے مگر پارٹی کے لئے اچھا سوچتا ہے۔
پچھلے دنوں میرے ساتھ ایک ٹی وی ٹاک میں غلام عباس نے بڑی دردمندی اور دلسوزی سے باتیں کیں۔ کسی کے پاس ان باتوں پر غور کرنے کا وقت ہے؟ البتہ نوید چودھری کی باتوں میں دانشمندی زیادہ تھی۔ یہاں دانشمندی کا کیا مطلب ہے ہر کسی کو معلوم ہو گا؟ شوکت بسرا نے اپنے نئے عہدے کے حوالے سے بہت مفید باتیں کیں اور اس ارادے کا اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی انشاء اللہ اپنے نئے زمانے میں سرخرو ہو کر سامنے آئے گی۔ میں اور بے پناہ شاعر اعجاز ثاقب اس کے لئے اچھی آرزو رکھتے ہیں۔
ہم نے اس گفتگو میں ایک مستحکم شخصیت مخلص اور جینوئن لیڈر خاندانی آدمی بہت غیور اور خوددار شخص رانا آفتاب کا ذکر کیا۔ شوکت نے تو کہا کہ بلاول بھٹو زرداری سے میں نے درخواست کی کہ پارٹی کے نئے زمانے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کے گھر جائیں انہیں واپس لانے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اس کے بغیر پیپلز پارٹی پنجاب میں وہ شان حاصل نہیں کر سکے گی جو بھٹو کے زمانے میں حاصل ہوئی جسے بینظیر بھٹو نے کسی حد تک قائم رکھا۔ شہید بی بی تو رانا آفتاب کے گھر بھی گئی تھیں۔ رانا صاحب پنجاب پیپلز پارٹی کے صدر بھی رہے ہیں کئی بار رکن اسمبلی اور وزیر بھی تھے۔ ان سب حوالوں سے وہ عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ قاسم ضیاء کی عدالت میں حاضری کے دوران مجھے نوید چودھری کی موجودگی اچھی لگی۔
پیپلز پارٹی کے سب لوگ قاسم ضیاء کے لئے ایک گواہی بن جائیں کہ وہ اچھے آدمی ہیں۔ انہیں ہاکی کا چیئرمین بنانا کوئی درست فیصلہ نہیں تھا۔ قاسم ضیاء کو کسی کنارے تو لگا کر رکھنا تھا جبکہ اس کا کام دریا کے درمیان کوئی کردار ادا کرنا ہے۔ وہ میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی کا یہ شعر کئی بار سن چکا ہو گا
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
شوکت بسرا یہ شعر بلاول بھٹو زرداری کو بھی سنائیں۔ لگتا ہے پیپلز پارٹی کے نئے زمانے کا آدمی وہی ہے؟ اس کے ساتھ جو ہوں گے وہ پرانے لوگ ہوں تو بھی وہ پیپلز پارٹی کے نئے زمانے کے لوگ ہوں گے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024