وزیر داخلہ پنجاب کے بعد متحدہ کے رشید گوڈیل پر سفاکانہ حملہ‘ سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان---- کہیں یہ سیاستدانوں کو ایک ایک کرکے منظر سے ہٹانے کی سازش تو نہیں؟
کراچی کے علاقے بہادر آباد میں مسلح افراد کی فائرنگ سے ایم کیو ایم متحدہ کے رہنماء رشید گوڈیل گزشتہ روز شدید زخمی ہو گئے جبکہ دہشت گردی کی اس واردات میں ان کا ڈرائیور جاں بحق ہو گیا تاہم رشید گوڈیل کی اہلیہ معجزانہ طور پر اس بے دریغ فائرنگ سے محفوظ رہیں۔ رشید گوڈیل کو سینے‘ جبڑے‘ گردن اور سر پر چھ گولیاں لگیں۔ انہیں فوری طور پر قریبی لیاقت نیشنل ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں ونٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے اور انکی حالت انتہائی تشویشناک بتائی گئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق رشید گوڈیل بہادرآباد میں واقع ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور سے شاپنگ کرکے اپنی گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ سات سے آٹھ مسلح افراد نے اچانک انکی گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی۔ ایس ایس پی جسکانی کے بقول رشید گوڈیل پر نائین ایم ایم پستول سے فائرنگ کی گئی۔ وزیراعظم نوازشریف اور متحدہ کے قائد الطاف حسین نے رشید گوڈیل پر حملے کی سفاکانہ واردات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے انکی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔ وزیراعظم نے ملزمان کو جلدازجلد گرفتار کرنے کے احکام بھی جاری کئے جبکہ الطاف حسین نے اس واردات میں رشید گوڈیل کے ڈرائیور کے جاں بحق ہونے پر افسوس کا اظہار کیا اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ رشید گوڈیل کی زندگی کیلئے دعا کریں۔
رشید گوڈیل پر کراچی کے بھرے بازار میں جس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا عین اس وقت متحدہ کے ہیڈکوارٹر نائن زیرو میں پارلیمنٹ کی مذاکراتی ٹیم کے قائد مولانا فضل الرحمان کے متحدہ کے قائدین کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوا تھا جس سے چند لمحات پہلے مولانا فضل الرحمان کا نائن زیرو آمد پر متحدہ کی جانب سے پرتپاک استقبال کیا گیا اس لئے رشید گوڈیل پر حملہ بادی النظر میں استعفوں کی واپسی کیلئے ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نظر آتا ہے۔ دہشت گردی کی اس واردات کے باعث مذاکرات مؤخر کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار اور مولانا فضل الرحمان نے بھی اس شبہہ کا اظہار کیا کہ یہ حملہ ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے تاہم دہشت گردی کی اس واردات سے صرف دو روز قبل اٹک میں وزیر داخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزادہ اپنے خاندان کے سات قریبی ارکان اور 13 دیگر افراد کے ہمراہ بدترین دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اس لئے مخصوص مفادات کے حامل دہشت گردوں کی جانب سے سیاست دانوں کو چن چن کر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے کی مذموم منصوبہ بندی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس حوالے سے قومی سیاسی شخصیات کے تحفظ میں سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی بھی طشت ازبام ہو رہی ہے جس سے یہ سوال اٹھنا فطری امر ہے کہ عسکری قیادتوں اور سکیورٹی حکام کی جانب سے گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے جاری کراچی کے ٹارگٹڈ اپریشن اور شمالی وزیرستان میں گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے جاری اپریشن ضرب عضب میں نمایاں کامیابیوں کے دعوے کئے جا رہے تو پھر ان کامیابیوں کے باوجود دہشت گردوں کو ملک کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی کیلئے اپنے اہداف پورے کرنے میں کیوں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ بے شک امن و امان کا قیام اور ملک کے ہر شہری کی جان مال اور عزت و آبرو کا تحفظ حکومت اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس ناطے سے حکومتی گورننس بالعموم تنقید کی زد میں رہتی ہے اور امن و امان کی بحالی میں ناکامی کا ملبہ ڈال کر ہی سول حکومتوں کو امور حکومت و مملکت کی انجام دہی کے معاملہ میں نااہل ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور دفاع وطن کے علاوہ اندرون ملک کسی خلفشار پر قابو پانے اور مبینہ طور پر سیاست دانوں کا ڈالا گیا سارا ’’گند‘‘ صاف کرنے کیلئے بھی قوم کی توجہ عسکری قیادتوں کی جانب مبذول کرائی جاتی ہے۔ اسی تناظر میں اگر سکیورٹی اداروں میں سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے کوئی خامیاں یا کمزوریاں موجود ہیں جن کی دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد نشاندہی ہونے کے باوجود ان خامیوں اور کمزوریوں پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا تو عسکری قیادتوں سے بھی تقاضا کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی صفوں میں موجود کمزوریوں اور خامیوں پر بھی نظر رکھیں اور امور حکومت پر نظر رکھنے اور اس میں دلچسپی لینے کے بجائے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے سلسلہ میں اپنی فعالیت بہتر بنائیں۔ اگر انکی توجہ بٹی رہے گی تو حکومتی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنیوالے دہشت گردوں کو اپنے خلاف جاری اپریشنز کے باوجود اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے کھل کھیلنے کا موقع ملتا رہے گا جیسا کہ اٹک میں کرنل شجاع خانزادہ اور کراچی میں رشید گوڈیل کے ساتھ ہونیوالی دہشت گردی کی صورت میں نظر آرہا ہے۔
ہماری سکیورٹی فورسز بے شک دفاع وطن کیلئے پرعزم ہیں اور کنٹرول لائن پر دشمن ملک بھارت کی روزمرہ کی فائرنگ اور گولہ باری کا توڑ کر رہی ہیں‘ اسی طرح ملک میں دہشت گردی کے ناسور کے قلع قمع کیلئے حکومت کی جانب سے دیئے گئے ٹاسک کی تکمیل کیلئے بھی سکیورٹی فورسز کی عملیت پسندی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اپریشن ضرب عضب کے دوران اب تک دہشت گردوں کے اہم کمانڈروں سمیت سینکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ انکے بیسیوں محفوظ ٹھکانے گولہ بارود اور دوسرے سازوسامان سمیت تباہ کئے گئے ہیں۔ گزشتہ روز بھی شمالی وزیرستان کے علاقوں شوال اور غزلمائی اور خیبر ایجنسی کے علاقے راجگال میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرکے 75 کے قریب دہشت گردوں کو ہلاک اور انکے انفراسٹرکچر اور اسلحہ ڈپو کو تباہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی ٹارگٹڈ اپریشن میں بھی رینجرز حکام کی جانب سے کئی اہم اہداف پر کامیاب اپریشن کے دعوے کئے گئے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم میاں نوازشریف کی زیر صدارت منعقدہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بھی دہشت گردوں کی بیخ کنی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور منگل کے روز وزیراعظم میاں نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے مابین ہونیوالی ون آن ون میٹنگ میں بھی دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑنے کے معاملات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسکے باوجود دہشت گردوں کی جانب سے چیدہ چیدہ سیاست دانوں کو اپنے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے جس سے ملک میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوتی نظر آرہی ہے اور ملک کا ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے تو سکیورٹی کی ذمہ دار حکومتی ایجنسیوں کو دہشت گردی کے پس پردہ تمام محرکات کا بہرصورت کھوج لگانا اور اپنی صفوں میں موجود خامیوں اور کمزوریوں پر بھی قابو پانا ہوگا۔
اس وقت قوم کو حکومتی اور عسکری قیادتوں کی جانب سے یہی باور کرایا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک جاری رہے گی جبکہ دہشت گرد عسکری اداروں کے افسروں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کو نشانہ بنانے سے بھی نہیں چوک رہے اور حکومتی‘ عسکری قیادتوں کے ہر دعوے کا جواب دہشت گردی کی کسی نئی واردات کی صورت میں دیا جاتا ہے تو قوم کے دلوں میں یہ خدشہ پیدا ہونا بھی فطری امر ہوگا کہ اس جنگ کی آڑ میں مخصوص مفادات کے حامل لوگ کہیں پورے ملک کا ہی صفایا نہ کر دیں۔ اس وقت بلاشبہ ہر اہم حکومتی سیاسی شخصیت غیرمحفوظ نظر آتی ہے کیونکہ انہیں تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دار ایجنسیاں اپنی اس ذمہ داری میں قطعی طور پر ناکام ہیں اس لئے امن و امان اور حکومتی گورننس کے معاملہ میں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے اور بالخصوص سول حکمرانی کیلئے سیاستدانوں کو نااہل ثابت کرنے کیلئے زور لگانے کے بجائے ملک اور عوام کی بقاء و سلامتی کی جانب سنجیدہ توجہ دی جائے اور جس کی آئین و قانون کے تحت جو ذمہ داری ہے‘ اسکی بجا آوری میں کوئی کمی نہ رہنے دی جائے۔ کرنل شجاع خانزادہ کے بعد کراچی میں رشید گوڈیل پر حملہ سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔