تمام عمر اہل وطن سنگ زنی کرتے رہے
یہ اور بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
احمد ندیم قاسمی نے ہمارے اجتماعی رویے کا پردہ چاک کیا ہے بہت سی مثالیں ہیں زندگی میں قابل توجہ نہ سمجھے جانیوالے، مرنے کے بعد آنکھ تارا، اور ’’مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا‘‘ کی تفسیر بن گئے مگر ایسے ہی رویوں کے عکاس معاشرہ میں کچھ ایسے بھی ہیں جو زندگی میں بھی قابل احترام اور موت کے بعد بھی عزت و توقیر ان کا نصیب رہی۔ ان ہی ہستیوں میں ایک بڑا نام لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل کا بھی ہے کس کس نے انکی کیسی کیسی خوبیوں کا ذکر نہیں کیا۔ جنرل حمید گل بہرحال انسان تھے بشری کمزوریوں سے ماوراء نہیں تھے ان سے کچھ غلطیاں ضرور ہوئی ہوں گی مگر مجموعی طور پر انکی زندگی بہت صاف ستھری نظر آتی ہے۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ فوج پاکستان کی جغرافیائی ہی نہیں نظریاتی سرحدوں کی بھی محافظ ہے حمید گل کی شخصیت اس دعویٰ کی روشن دلیل ہے۔ روزنامہ اُمت اور ہفت روزہ تکبیر کا نو سال سے زائد لاہور میں بیورو چیف رہنے کے دوران ان سے بہت قریبی رابطہ رہا، بہت سے معاملات میں بالخصوص اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے سلسلے میں انکی مخلصانہ رہنمائی حاصل رہی میں انہیں فون کرتا، اٹینڈ نہ ہو سکتا تو کچھ وقت کے بعد ان کا فون آجاتا اور اس انداز سے معذرت کرتے جیسے فون ان ہی کی کسی غرض سے کیا گیا تھا۔ وہ بہت بڑے انسان تھے۔ راولپنڈی میں ’’دفاع پاکستان کانفرنس ہوئی‘‘ میں بھی چلا گیا برادرم یحییٰ مجاہد جلسہ گاہ سے متصل ایک خیمے میں لے گئے جہاں محترم حافظ سعید اور جنرل حمید گل تشریف فرما تھے خیمے میں داخل ہوا تو عجیب سی شرمندگی نے گلے لگا لیا کہ یہ دونوں بلند مرتبت شخصیات یوں اُٹھ کر کھڑے ہو گئیں جیسے میں کوئی بہت اہم شخصیت ہوں۔ جنرل صاحب لاہور کے حال احوال پوچھتے رہے پھر دوسری بار شرمندگی کا جھٹکا لگا جب انہوں نے موجودہ حالات کے حوالے سے رہنمائی چاہنے کے انداز میں جائزہ کیلئے کہا، عرض کیا ’’حضور! کیوں چراغ کو سورج کو روشنی دکھانے کی آزمائش میں ڈال رہے ہیں۔‘‘ لمحاتِ موجودہ میں حالات کے بنتے بگڑتے زاویوں سے آپ سے بہتر شناسا کون ہو گا۔ بہرحال تعمیل ارشاد میں ٹوٹے پھوٹے انداز میں کچھ عرض کیا جسے انہوں نے اپنی بہترین معلومات اور فہم و ادراک کی روشنی سے مزید نکھار دیا افسوس رہے گا جنازے میں حاضر نہ ہو سکا۔ انشاء اللہ قبر پر حاضری ضرور دونگا۔
میرے نزدیک جنرل حمید گل ایک کامیاب انسان تھے بہت بڑا عہدہ، شمار میں نہ آنیوالی دولت اور میلوں میں پھیلی زمین و جائیداد کامیابی کا نشان نہیں ہے زندگی میں ہر طبقے کی جانب سے ملنے والی عزت و احترام ہی کامیابی کا خوبصورت استعارہ ہے۔ انکے جنازے میں آرمی چیف راحیل شریف، فوج کے کئی سربراہان، بہت سے جنرلز چھوٹے بڑے فوجی افسروں اور جوانوں کیساتھ ہزاروں افراد کی شرکت ان کیلئے لکھے جانیوالے درجنوں کالمز، سینکڑوں بیانات، بہت سے دعائیہ اجتماعات، غائبانہ نماز جنازہ، کشمیر، برما اور جہاں جہاں مسلمان مظلوم ہیں انکی جانب سے اظہار رنج و غم، یہ بے شک انعام خداوندی ہے، رب جلیل و عظیم کا فرمان ہے ’’جہاد قیامت تک جاری رہے گا‘‘ وہ سربلند کیوں نہ ہوں جنکی زندگی اس فرمان خداوندی کی عملی گواہی بن جائے۔
بلاشبہ وہ نظریہ پاکستان کے صفِ اوّل کے محافظین میں شامل تھے۔ نظریہ پاکستان دراصل دین اسلام ہے وہ نہ صرف پاکستان کی جغرافیائی حدود میں نظریہ پاکستان کی سربلندی کیلئے کوشاں تھے بلکہ دنیا بھر میں وہ اس نظریہ کے پرچارک تھے۔ انہوں نے برما کے روہنگیا مسلمانوں کو برما میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ’’پاکستان‘‘ بنانے کی راہ دکھائی، بی بی سی نے ایک موقع پر انکے اعتماد کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ’’آئی ایس آئی کے چیف کی حیثیت سے ایک مشن افغانستان میں جاری رکھا، دوسرا مشن بھارتی پنجاب میں کرشمہ دکھا رہا تھا اور تیسری جانب افغان جہاد سے فارغ ہونیوالوں کو کشمیر کے محاذ پر بھیجے جانے کی تیاری ہو رہی تھی جنرل حمید گل کے سچا پاکستانی اور کھرا مسلمان ہونے کی یہ دلیل ہی کافی ہے کہ پورا یورپ اور بالخصوص امریکہ ان کا مخالف تھا۔ جہاد افغانستان میں ان کا کردار تاریخی تھا افغان مجاہدین کی بہترین عسکری رہنمائی سوویت یونین جیسی سپر پاور کو شکست کا باعث بنی البتہ طالبان بنانے کا الزام ہی ہے۔ ایک تو تحریک طالبان انکے فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد بنی دوسرے بینظیر بھٹو اور امریکہ کی جانب سے حمایت نے انہیں طالبان سے فاصلے پر رکھا ہوا تھا، بعدازاں مولانا سمیع الحق اور مفتی نظام الدین شامزئی نے طالبان کے حوالے سے انکے تحفظات دور کئے ورنہ وہ ذہنی طور پر گلبدین حکمت یار کے زیادہ قریب تھے پھر انہوں نے کھل کر طالبان کی حمایت کی۔ دفاع افغانستان کونسل میں سرگرم حصہ لیا۔
طالبان، جہاد افغانستان میں انکے کردار سے آگاہ تھے۔ چنانچہ وہ ان سے رہنمائی کی روشنی حاصل کرتے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی جانب سے پاکستان کو امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بنانے کی کھل کر مخالفت کی ۔ اسکے تباہ کن نتائج سے آگاہ کیا جسے آج پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف انکے جنازے میں شریک نہیں ہوئے تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر صدر مملکت ممنون حسین‘ وزیراعظم نوازشریف‘ وزیر داخلہ چودھری نثار‘ وزیراعلیٰ شہباز شریف اور دیگر حکومتی عہدیدار کیوں شریک نہیں ہوئے۔ وزیراعظم نوازشریف کے تو وہ اس لحاظ سے محسن تھے کہ 88ء میں انہوں نے سیکولر‘ بھارت نواز اور اسلامی نظریہ سے گرم جوشی نہ رکھنے والے عناصر کا راستہ روکنے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا جس نے نوازشریف کیلئے قصرِ اقتدار کا راستہ کشادہ کر دیا۔ اس حقیقت سے آشنا لوگ ورطۂ حیرت میں چلے گئے تھے جب انکے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ پر ہونے کے باوجود انکی جگہ آصف نواز کو آرمی چیف بنا دیا گیا۔ پھر وہ جن مشکلات کا شکار ہوئے اگر حمید گل کو یہ منصب دیا جاتا تو وہ نہ صرف ان مشکلات کا شکار نہ ہوتے بلکہ اپنا اقتدار مستحکم کرنے میں بھی کامیاب رہتے۔ انکے جنازے میں نہ آ کر وزیراعظم نوازشریف نے عوام کی نظروں میں اچھا تاثر پیدا نہیں کیا بلکہ اپنے اس عمل سے فوج اور سول حکومت کے مابین خلیج کے تاثر کو گہرا کیا ہے۔ اس حوالے سے سیکورٹی عذرلنگ نہیں بن سکتا کہ جہاں آرمی چیف اور عسکری قیادت موجود ہو وہاں سکیورٹی کو مشکوک سمجھنا ناقابل فہم ہے۔ بہرحال حکومتی عہدیداروں کی عدم شرکت سے انکے رتبہ و مقام پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ بہت عرصہ ہوا نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ایک تقریب میں ملاقات ہوئی پوچھا اُمت کو کیوں چھوڑ دیا؟ میں نے عرض کیا ’’میرا رزق وہاں سے نوائے وقت منتقل ہوگیا ہے‘‘ بہت محظوظ ہوئے فرمایا ’’کسی چھوڑنے والے ادارے کے حوالے سے ایسا خوبصورت جواب پہلی بار سنا ہے۔‘‘
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024