ڈاکٹر علی اکبر الازھری ۔۔۔
دہشت گردی کے زخموں سے چور چور پاکستان میں اس مرتبہ ساون کا بھیگا موسم تباہی ہلاکت اور بھوک و افلاس کے لشکر لے کر داخل ہوا ہے۔ جولائی کے آخری ایام میں شروع ہونے والی ’’برکھا رت‘‘ نے ائر بلیو کی 152 قیمتی جانوں کی قربانی سے آغاز کیا۔ اس خونی رئوداد کے بطن سے ملک کے شمالی علاقوں میں شدید بارشوں اور سیلابی ریلے کی اطلاع ایسی ابھری کہ آج تک یہ سیلِ بلا تھمنے میں نہیں آرہا۔ اس اجڑے دیار پر کارکنان قضا و قدر کو بھی غصہ آگیا اور اس پر سایہ فگن آسمان بھی راتوں رات پھٹ پڑا۔ موسمیات کے ماہرین حیران ہیں کہ مون سون کے سارے قدرتی اصول اور ضابطے اس مرتبہ غلط ثابت ہوئے۔ شمالی علاقہ جات پر بادلوں نے ایسا غیر متوقع اجتماع کیا کہ سر سبز و شاداب پہاڑوں سے ابلنے والے آبی ریلے نے صدیوں کی تعمیر کو دیکھتے ہی دیکھتے صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ نیلم، سوات اور کابل جیسے دریا ایسے بپھرے کہ اب تین ہفتوں کے بعد بھی ان کی خونی لہریں تھمنے میں نہیں آرہیں۔ یہ بھی پہلی دفعہ ہوا ہے کہ برسوں سے پیاسے صحراء نے سمندر کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سیل بلا خیبر پی کے اور مظفر آباد سے ہوتا ہوا پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں تاریخ کی بدترین تباہی مچاتا ہوا سمندر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک میں مون سون بارشوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ اب بھی نہ جانے کتنے شہر کتنی بستیاں اور لہلہاتے کھیت ان آبی لہروں کی نذر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی وطن عزیز کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
UNO کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے انسانی ہمدردی کے تحت پاکستان کے ایک روزہ دورے میں جب اس تباہی کے کچھ مناظر دیکھے تو انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ اس حادثے سے نمٹنا تنہا کسی بھی قوم یا حکومت کیلئے ممکن نہیں۔ ابھی حال ہی میں یونیسیف کے رینجنل ڈائریکٹر ڈینئل ٹولے اور انکے ہمراہ دیگر ماہرین نے بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کا حالیہ سیلاب کرۂ ارضی کی سب سے بڑی ایمرجنسی ہے۔ تباہی کے مناظر دیکھے بغیر اسکی سنگینی کا احساس پیدا نہیں ہوسکتا اس لئے انہوں نے عالمی اداروں اور تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ اس قدرتی آفت میں گھرے کروڑوں لوگوں کی جانیں بچانے اور انہیں موت کی آبی وادیوں سے محفوظ کرنے کیلئے عالمی سطح کے اہتمام کی ضرورت ہے۔
افواج پاکستان پوری تن دہی سے ان خونی لہروں سے لڑ کر لوگوں کی جانیں بچا رہی ہیں۔ پاکستانی میڈیا دل و جان سے قوم کی امنگوں پر پورا اتر رہا ہے۔ مذہبی و فلاحی تنظیمیں پوری ہمت اور کوشش سے ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ مخیر حضرات اندرون اور بیرون ملک مدد کرنے کیلئے آمادہ ہیں لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بوجوہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا اعتبار اور ساکھ خراب کرچکی ہیں۔ گذشتہ روز اقوام متحدہ نے جب 35 لاکھ بچوں کی زندگی کو لاحق خطرے سے آگاہ کیا تو خاص طور پر اس خراب حکومتی ساکھ کا ذکر بھی کیا جس کی وجہ سے بیرونی ممالک اور فلاحی تنظیمیں امدادی رقوم دینے سے ہچکچارہی ہیں۔
اسی خطرے کے پیش نظر مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے وزیراعظم کو ’’قومی بحالی کمیشن‘‘ کی تجویز پیش کی تھی جس پر بجا طور پر وزیراعظم نے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے اس کی فوری تشکیل کا وعدہ کیا، مگر آج تین چار روز گزر چکے ہیں حکومتی ایوانوں میں خاموشی ہے۔ مجوزہ کمیشن نیک خصلت، دیانتدار ججز اور منتخب وفاقی و صوبائی نمائندوں سے تشکیل کیا جانا تھا لیکن باخبر ذرائع کیمطابق صدارتی کیمپ وزیراعظم کے اس اتفاق کو ’’سیاسی بھولپن‘‘ قرار دے رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ریلیف سرگرمیاں فوج کے ذریعے جاری رکھی جائیں اور فنڈز کی فراہمی جیالوں کے ہاتھوں ہو تاکہ صدر مملکت اپنی تباہ کن ساکھ عوام میں بحال کرواسکیں۔ اگر فی الواقع ایسا ہی ہے تو یہ انکی سخت بھول اور سیلاب زدگان کیساتھ ایک اور ظلم و ناانصافی ہوگی۔ زلزلے میں حاصل ہونیوالے امدادی سامان اور رقوم کی تقسیم میں ’’ارسا‘‘ خاصی حد تک بدنام ہوچکا ہے۔ آنکھوں دیکھا حال ہے کہ زلزلہ زدگان کے کروڑوں روپے کرپٹ مافیا ہضم کرگیا جس میں متعلقہ فوجی افسر بھی شامل ہیں جنہوں نے مقامی کرپٹ عناصر سے مل کر جعلی شناختی کارڈز جمع کئے اور فرضی مکانات کی تعمیر کے فنڈز ہڑپ کرکے راتوں رات مری اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں اپنے محلات کھڑے کرلئے‘ لہٰذا ایسی غلطی دوبارہ نہیں دہرائی جانی چاہئے۔
پاکستانی قوم دنیا کی بہترین اور باہمت قوم ہے لیکن اسکی سب سے بڑی بدقسمتی اسکے بددیانت اور خودغرض حکمران ہیں۔ پوری دنیا کے حساس ممالک اور ادارے اس سلسلے میں تشویش کا اظہار بہ بانگ دہل کرچکے ہیں جو بجائے خود پاکستان کے لئے شرمندگی کا مقام ہے‘ اس لئے موجودہ نازک حالات اور خطرات کا فوری حل اسی میں ہے کہ حکومت مجوزہ قومی کمیشن کا اعلان کرے اور اسے سیاسی مفادات اور کرپشن سے حتی الوسع دور رکھنے کی کوشش کی جائے۔ UNO کی جنرل اسمبلی اور اسلامی سربراہی کانفرنس نے اس سلسلے میں اجلاس طلب کرلئے ہیں۔ پاکستان کے مخیر حضرات پاکستانی تعمیر نوکیلئے اپنا سرمایہ لگانے کو تیار ہیں اور پڑوسی ممالک بھی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ تو حکومتی ساکھ کا ہے جو اس وقت امدادی رقوم کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ اس بدترین قدرتی آفت کیلئے جس قدر محنت، لگن اور خلوص درکار ہے اسی قدر لامحدود امداد کی بھی ضرورت ہے۔
یہ دو چار دنوں ہفتوں یا مہینوں کا کام نہیں بلکہ پوری منصوبہ بندی اور چابکدستی کے ساتھ کام کیا جائے تو یہ زخم سالوں میں جاکر بھریں گے۔ اس وقت فوری طور پر تو لوگ جانیں بچا کر محفوظ مقامات پر پناہ لے رہے ہیں۔ انکی خوراک اور عارضی رہائش کا بھی تسلی بخش بندوبست نہیں ہورہا چہ جائیکہ بحالی اور آبادکاری کے اگلے دو مرحلوں پر کام شروع کیا جاسکے۔ جب تک ایسا ادارہ نہیں بن جاتا جو ریسکیو، ریلیف بحالی اور تعمیر نو کے تمام مراحل کو مربوط اور منظم نہیں کرلیتا بے چینی افراتفری پھیلتی رہے گی اور حکومت کیخلاف غم و غصے کو ٹھنڈا نہیں کیا جاسکتا۔ رفاعی تنظیمیں خوراک اور نقد امداد بلاشبہ تقسیم کررہی ہیں مگر اس ہنگامی تقسیم میں کئی لوگ اپنے سٹور بھر رہے ہیں اور کئی بے آسرا بھوک پیاس کے ہاتھوں موت کو گلے لگارہے ہیں۔ اس تفریق اور خلیج کو مٹانا از حد ضروری ہے ورنہ لٹے پٹے اور بھوکے پیاسے لوگوں کا انتقام انارکی اور خونی انقلاب کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ:
٭قومی کمشن کا اعلان ہو جائے تو ملک کی تمام فلاحی تنظیمیں اسکے ساتھ رجسٹرڈ کر دی جائیں تاکہ علاقے اور کام تقسیم کر دیئے جائیں۔
٭قومی کمشن کی تشکیل کے بعد صوبائی کمشن بنائے جائیں جن کی رسائی براہ راست ضلعوں اور متعلقہ تحصیلوں تک ہو اور وہ تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی سے رضا کار بھرتی کرکے انہیں مختصر تربیت کے بعد موبلائز کرسکیں۔
٭ جیسا کہ مذہبی رہنماؤں نے بجا طور پر فتویٰ بھی دے دیا ہے۔ ایسے حالات میں اہل پاکستان کو حج اور عمرے کی رقوم ان بھوکے اور بے گھرلوگوں کی آبادکاری پر لگا دینی چاہیے اس سے اللہ پاک زیادہ خوش ہوں گے۔
٭ وفاقی حکومت کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پنجاب حکومت کی سستی روٹی سکیم کیلئے مختص اربوں روپے بھی اب اسی مد میں مختص کر دیئے جائیں۔
٭ عید کی آمد آمد ہے، پاکستان کے متمول شہری اپنے بیوی بچوں کیلئے عید کی تیاری ضرور کریں لیکن اس میں مناسب حصہ ان سیلاب زدگان کیلئے مختص کریں جن کے پاس تن ڈھانپنے کیلئے مناسب لباس بھی نہیں۔
یہ امور بر وقت اور منظم طر پر سر انجام دے دیئے جائیں تو اس تباہی کے بطن سے نیا پاکستان وجود میں آسکتا ہے، ایک فعال، غیور پر عزم اور باہمت پاکستان۔
دہشت گردی کے زخموں سے چور چور پاکستان میں اس مرتبہ ساون کا بھیگا موسم تباہی ہلاکت اور بھوک و افلاس کے لشکر لے کر داخل ہوا ہے۔ جولائی کے آخری ایام میں شروع ہونے والی ’’برکھا رت‘‘ نے ائر بلیو کی 152 قیمتی جانوں کی قربانی سے آغاز کیا۔ اس خونی رئوداد کے بطن سے ملک کے شمالی علاقوں میں شدید بارشوں اور سیلابی ریلے کی اطلاع ایسی ابھری کہ آج تک یہ سیلِ بلا تھمنے میں نہیں آرہا۔ اس اجڑے دیار پر کارکنان قضا و قدر کو بھی غصہ آگیا اور اس پر سایہ فگن آسمان بھی راتوں رات پھٹ پڑا۔ موسمیات کے ماہرین حیران ہیں کہ مون سون کے سارے قدرتی اصول اور ضابطے اس مرتبہ غلط ثابت ہوئے۔ شمالی علاقہ جات پر بادلوں نے ایسا غیر متوقع اجتماع کیا کہ سر سبز و شاداب پہاڑوں سے ابلنے والے آبی ریلے نے صدیوں کی تعمیر کو دیکھتے ہی دیکھتے صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ نیلم، سوات اور کابل جیسے دریا ایسے بپھرے کہ اب تین ہفتوں کے بعد بھی ان کی خونی لہریں تھمنے میں نہیں آرہیں۔ یہ بھی پہلی دفعہ ہوا ہے کہ برسوں سے پیاسے صحراء نے سمندر کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سیل بلا خیبر پی کے اور مظفر آباد سے ہوتا ہوا پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں تاریخ کی بدترین تباہی مچاتا ہوا سمندر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک میں مون سون بارشوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ اب بھی نہ جانے کتنے شہر کتنی بستیاں اور لہلہاتے کھیت ان آبی لہروں کی نذر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی وطن عزیز کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
UNO کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے انسانی ہمدردی کے تحت پاکستان کے ایک روزہ دورے میں جب اس تباہی کے کچھ مناظر دیکھے تو انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ اس حادثے سے نمٹنا تنہا کسی بھی قوم یا حکومت کیلئے ممکن نہیں۔ ابھی حال ہی میں یونیسیف کے رینجنل ڈائریکٹر ڈینئل ٹولے اور انکے ہمراہ دیگر ماہرین نے بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کا حالیہ سیلاب کرۂ ارضی کی سب سے بڑی ایمرجنسی ہے۔ تباہی کے مناظر دیکھے بغیر اسکی سنگینی کا احساس پیدا نہیں ہوسکتا اس لئے انہوں نے عالمی اداروں اور تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ اس قدرتی آفت میں گھرے کروڑوں لوگوں کی جانیں بچانے اور انہیں موت کی آبی وادیوں سے محفوظ کرنے کیلئے عالمی سطح کے اہتمام کی ضرورت ہے۔
افواج پاکستان پوری تن دہی سے ان خونی لہروں سے لڑ کر لوگوں کی جانیں بچا رہی ہیں۔ پاکستانی میڈیا دل و جان سے قوم کی امنگوں پر پورا اتر رہا ہے۔ مذہبی و فلاحی تنظیمیں پوری ہمت اور کوشش سے ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ مخیر حضرات اندرون اور بیرون ملک مدد کرنے کیلئے آمادہ ہیں لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بوجوہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا اعتبار اور ساکھ خراب کرچکی ہیں۔ گذشتہ روز اقوام متحدہ نے جب 35 لاکھ بچوں کی زندگی کو لاحق خطرے سے آگاہ کیا تو خاص طور پر اس خراب حکومتی ساکھ کا ذکر بھی کیا جس کی وجہ سے بیرونی ممالک اور فلاحی تنظیمیں امدادی رقوم دینے سے ہچکچارہی ہیں۔
اسی خطرے کے پیش نظر مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے وزیراعظم کو ’’قومی بحالی کمیشن‘‘ کی تجویز پیش کی تھی جس پر بجا طور پر وزیراعظم نے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے اس کی فوری تشکیل کا وعدہ کیا، مگر آج تین چار روز گزر چکے ہیں حکومتی ایوانوں میں خاموشی ہے۔ مجوزہ کمیشن نیک خصلت، دیانتدار ججز اور منتخب وفاقی و صوبائی نمائندوں سے تشکیل کیا جانا تھا لیکن باخبر ذرائع کیمطابق صدارتی کیمپ وزیراعظم کے اس اتفاق کو ’’سیاسی بھولپن‘‘ قرار دے رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ریلیف سرگرمیاں فوج کے ذریعے جاری رکھی جائیں اور فنڈز کی فراہمی جیالوں کے ہاتھوں ہو تاکہ صدر مملکت اپنی تباہ کن ساکھ عوام میں بحال کرواسکیں۔ اگر فی الواقع ایسا ہی ہے تو یہ انکی سخت بھول اور سیلاب زدگان کیساتھ ایک اور ظلم و ناانصافی ہوگی۔ زلزلے میں حاصل ہونیوالے امدادی سامان اور رقوم کی تقسیم میں ’’ارسا‘‘ خاصی حد تک بدنام ہوچکا ہے۔ آنکھوں دیکھا حال ہے کہ زلزلہ زدگان کے کروڑوں روپے کرپٹ مافیا ہضم کرگیا جس میں متعلقہ فوجی افسر بھی شامل ہیں جنہوں نے مقامی کرپٹ عناصر سے مل کر جعلی شناختی کارڈز جمع کئے اور فرضی مکانات کی تعمیر کے فنڈز ہڑپ کرکے راتوں رات مری اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں اپنے محلات کھڑے کرلئے‘ لہٰذا ایسی غلطی دوبارہ نہیں دہرائی جانی چاہئے۔
پاکستانی قوم دنیا کی بہترین اور باہمت قوم ہے لیکن اسکی سب سے بڑی بدقسمتی اسکے بددیانت اور خودغرض حکمران ہیں۔ پوری دنیا کے حساس ممالک اور ادارے اس سلسلے میں تشویش کا اظہار بہ بانگ دہل کرچکے ہیں جو بجائے خود پاکستان کے لئے شرمندگی کا مقام ہے‘ اس لئے موجودہ نازک حالات اور خطرات کا فوری حل اسی میں ہے کہ حکومت مجوزہ قومی کمیشن کا اعلان کرے اور اسے سیاسی مفادات اور کرپشن سے حتی الوسع دور رکھنے کی کوشش کی جائے۔ UNO کی جنرل اسمبلی اور اسلامی سربراہی کانفرنس نے اس سلسلے میں اجلاس طلب کرلئے ہیں۔ پاکستان کے مخیر حضرات پاکستانی تعمیر نوکیلئے اپنا سرمایہ لگانے کو تیار ہیں اور پڑوسی ممالک بھی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ تو حکومتی ساکھ کا ہے جو اس وقت امدادی رقوم کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ اس بدترین قدرتی آفت کیلئے جس قدر محنت، لگن اور خلوص درکار ہے اسی قدر لامحدود امداد کی بھی ضرورت ہے۔
یہ دو چار دنوں ہفتوں یا مہینوں کا کام نہیں بلکہ پوری منصوبہ بندی اور چابکدستی کے ساتھ کام کیا جائے تو یہ زخم سالوں میں جاکر بھریں گے۔ اس وقت فوری طور پر تو لوگ جانیں بچا کر محفوظ مقامات پر پناہ لے رہے ہیں۔ انکی خوراک اور عارضی رہائش کا بھی تسلی بخش بندوبست نہیں ہورہا چہ جائیکہ بحالی اور آبادکاری کے اگلے دو مرحلوں پر کام شروع کیا جاسکے۔ جب تک ایسا ادارہ نہیں بن جاتا جو ریسکیو، ریلیف بحالی اور تعمیر نو کے تمام مراحل کو مربوط اور منظم نہیں کرلیتا بے چینی افراتفری پھیلتی رہے گی اور حکومت کیخلاف غم و غصے کو ٹھنڈا نہیں کیا جاسکتا۔ رفاعی تنظیمیں خوراک اور نقد امداد بلاشبہ تقسیم کررہی ہیں مگر اس ہنگامی تقسیم میں کئی لوگ اپنے سٹور بھر رہے ہیں اور کئی بے آسرا بھوک پیاس کے ہاتھوں موت کو گلے لگارہے ہیں۔ اس تفریق اور خلیج کو مٹانا از حد ضروری ہے ورنہ لٹے پٹے اور بھوکے پیاسے لوگوں کا انتقام انارکی اور خونی انقلاب کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ:
٭قومی کمشن کا اعلان ہو جائے تو ملک کی تمام فلاحی تنظیمیں اسکے ساتھ رجسٹرڈ کر دی جائیں تاکہ علاقے اور کام تقسیم کر دیئے جائیں۔
٭قومی کمشن کی تشکیل کے بعد صوبائی کمشن بنائے جائیں جن کی رسائی براہ راست ضلعوں اور متعلقہ تحصیلوں تک ہو اور وہ تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی سے رضا کار بھرتی کرکے انہیں مختصر تربیت کے بعد موبلائز کرسکیں۔
٭ جیسا کہ مذہبی رہنماؤں نے بجا طور پر فتویٰ بھی دے دیا ہے۔ ایسے حالات میں اہل پاکستان کو حج اور عمرے کی رقوم ان بھوکے اور بے گھرلوگوں کی آبادکاری پر لگا دینی چاہیے اس سے اللہ پاک زیادہ خوش ہوں گے۔
٭ وفاقی حکومت کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پنجاب حکومت کی سستی روٹی سکیم کیلئے مختص اربوں روپے بھی اب اسی مد میں مختص کر دیئے جائیں۔
٭ عید کی آمد آمد ہے، پاکستان کے متمول شہری اپنے بیوی بچوں کیلئے عید کی تیاری ضرور کریں لیکن اس میں مناسب حصہ ان سیلاب زدگان کیلئے مختص کریں جن کے پاس تن ڈھانپنے کیلئے مناسب لباس بھی نہیں۔
یہ امور بر وقت اور منظم طر پر سر انجام دے دیئے جائیں تو اس تباہی کے بطن سے نیا پاکستان وجود میں آسکتا ہے، ایک فعال، غیور پر عزم اور باہمت پاکستان۔