گوجرانوالہ میں نگہبان پیکج کے 6 ہزار تھیلے سٹور کر کے فروخت کرنے والوں پر چھاپہ۔
ہم بارہا پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمارے بے ضمیر لوگ یا دکاندار امدادی سامان اور گفٹ پیکج کا سامان بھی سٹور کر لیتے ہیں اور بعد میں اسے دکانوں پر فروخت کرتے ہیں۔ اب دیکھ لیں یہی کچھ گوجرانوالہ میں ہو رہا ہے۔ یہ عجب چڑے خوروں کا شہر بن گیا ہے جہاں (لالی) مینا کو چڑے سمجھ کر کھایا جاتا ہے۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا اور لوگ کہتے ہیں سواد آ گیا۔ کڑاہی میں مردہ چکن اور مٹن ہانڈی میں خدا جانے کیا کیا کھاتے ہیں اور فخریہ اعلان ہوتا ہے کہ یہ پہلوانوں، خوش خوراکوں کا شہر گوجرانوالہ ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ صرف کھانے پینے میں ہی نہیں، اور بھی بہت سے معاملات میں یہاں دو نمبری عروج پر ہے۔ دماغ تو ویسے ہی ان کے الابلاکھا کر تیز ہو گئے ہیں۔ سو فراڈ میں بھی یہ بہت آگے جا چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی طرف سے نگہبان پیکج کوئی 3 یا 4 سال پرانی بات نہیں ابھی بمشکل ایک ہفتہ ہوا ہے رمضان کو گزرے اس کے باوجود فراڈیوں کی تیزی دیکھیں گوجرانوالہ کے ان خوف خدا سے عاری لوگوں نے غریبوں کے لئے دیا یہ رمضان پیکج کا امدادی سامان بھی نہیں چھوڑا اس میں بھی بے ایمانی کی راہ نکالی اور یہ سامان چھپا کر سٹور کر لیا جہاں اسے کھول کر یعنی سرکاری تھیلے سے نکال کر علیحدہ علیحدہ کیا جا رہا تھا تاکہ بازار میں لے جا کر فروخت کیا جائے۔ گرچہ بے ایمان کا کوئی دین نہیں ہوتا مگر اتنے تھیلے اپنوں نے بھی فراڈ کر کے لیے ہوں گے۔ اپنوں نے ہی ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے ورنہ غیروں کو تو دور سے پہچان لیا جاتا ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب ذرا ان نادان دوستوں کی خبر لیں جنہوں نے 6 ہزار تھیلے چھپائے۔ یہ کہاں سے انہیں ملے کس نے انہیں دئیے۔ یہ تو عام غریبوں لوگوں کے لیے سستے رمضان پیکج کی سوغات تھی اسے اپنے لیے سوغات بنانے والے کون ہیں ذرا انہیں تو بے نقاب کیا جائے۔
٭٭٭٭٭
پنجاب اور سندھ میں گورنرز کی تبدیلی کی باتیں۔
نجانے کیوں لگتا ہے موجودہ حکومت نگراں دور کے گورنرز سے پیچھا چھڑانے کے چکروں میں ہے۔ جبھی تو پنجاب اور سندھ میں گورنروں کی تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔ ویسے بھی فلم کے سین بدلیں منظر بدلیں تو کردار بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں بلیخ الرحمن اور سندھ میں کامران ٹیسوری کی گورنری ہے۔ پنجاب میں تو معاملہ ماٹھا ہی ہے۔ گورنر بلیخ الرحمن حلیم الطبع قسم کے گورنر ہیں ، عشائیہ، عصرانے، ظہرانے ، تقسیم اعزازات، کتابوں کی رسم رونمائی میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی ہمیشہ اکثریت رہی ہے جو گورنر ہاﺅس کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں اور اس قسم کی تقریبات کا انعقاد کر کے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں گورنرز بے چارے بھی کیا کریں وہ بھی اس بہانے کچھ میل ملاقات کر لیتے ہیں اور چند گھنٹے گورنر ہاﺅس میں خوب چہل پہل سے دل بہلا لیتے ہیں۔ مگر کراچی یعنی سندھ کے گورنر اس کے برعکس خاصے عوامی گورنر ہیں کبھی وہ گورنر ہاﺅس کے باہر عدل کی گھنٹی لگا کر شہرت پاتے ہیں کبھی عید و دیگر بڑے ایام میں گورنر ہاﺅس کے دروازے عوام کے لیے کھول کر ان کی تفریح طبع کا بندوبست کرتے ہیں۔ رمضان میں تو انہوں نے عوامی افطار پارٹیاں رکھ کر لوگوں کو خوش کر دیا جہاں ہر ایک گورنر ہاﺅس آ کر روزہ افطار کرتاتھا۔ یوں ثواب کمایا، فی الحال متحدہ والے بھی ان سے خوش ہی ہیں۔ مگر اب لگتا ہے پنجاب میں اور سندھ میں گورنرز کی تبدیلی ہو سکتی ہے پنجاب میں قرعہ فال پیپلز پارٹی کی جہاں آرا وٹو دختر منظور وٹو کے نام نکلنے کا شور ہے۔ یہ ایک اچھی مثال ہو گی کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ دونوں خواتین ہوں۔ البتہ سندھ میں کامران ٹیسوری کی جگہ جسٹس(ر) مقبول باقر کا نام لیا جا رہا ہے مگر دیکھنا ہے کہ ایم کیو ایم کیا کہتی ہے کیونکہ وہ حکومتی اتحاد کی اہم جماعت ہے۔ معلوم نہیں وہ مانتی ہے یا نہیں۔ ٹیسوری ان کے ہی بندے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پنجاب کارڈیالوجی میں مریضوں کو نچلے عملے کی لوٹ مار سے بچائیں۔
کسی بات کا اثر ہوتا ہے یا نہیں یہ تو خدا جانے یا ہمارے متعلقہ محکمہ کے وزیر اور سیکرٹری، مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں نچلے درجے کے ملازمین اور سکیورٹی والوں کے علاوہ پیرا میڈیکل سٹاف والوں نے جو اندھیر نگری مچائی ہے اس سے تو یہ مفت علاج معالجہ کرنے والے ہسپتال بھی غریبوں کے لیے مہنگے ہسپتال بن چکے ہیں۔ قدم قدم پر بخشیش کو اپنا حق سمجھنے والے صرف چیک اپ کے مراحل میں ہی ایک غریب مریض سے سینکڑوں روپے وصول کر لیتے ہیں۔ اگر ہسپتال زیادہ اہم یعنی نازک امراض کے ہیں تو ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب کارڈیالوجی ایک بہترین ہسپتال ہے۔ ڈاکٹروں کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے سب درد دل رکھنے والے ہیں مگر سٹاف و دیگر عملہ ہسپتال کے گیٹ سے لے کر وارڈاور ڈاکٹروں کے کمرے تک قصائیوں کی طرح مریضوں کے لواحقین کا گوشت کاٹ کاٹ کر اپنا حصہ وصول کرنے پر تلا رہتا ہے۔ مٹھی گرم کیے بغیر بخشیش دئیے بغیر آپ ایک قدم بھی نہیں ا±ٹھا سکتے۔
یہ جگ بیتی ہی نہیں ہڈ بیتی بھی ہے۔ 100 روپے کے نوٹ کی ویلیو اب 10 روپے کے برابر رہ گئی ہے۔ وہ لینے کے باوجود عملہ یوں دھتکارتا ہے گویا وہ مریضوں کو اندر جانے کی اجازت د ے کر بڑا احسان کر رہا ہے۔ بے شک ان پر کام کا لوڈ بہت ہے مگر ڈاکٹروں پر بھی تو ہے۔ وہ کیسے تندہی سے تھکن کے باوجود چہروں پر مسکراہٹ لیے خدمت خلق کرتے ہیں۔ دل کے ہاتھوں مجبور راقم بھی انجیوگرافی کے لیے کارڈیالوجی کا مہمان بنا تو حال دل کے دورے کی اذیت کے ساتھ ہسپتال کے عملے کے رویے کی اذیت نے مزید خراب حال کر دیا۔ عام غریب دیہات کے لوگ تو سچ میں رونے والے ہو جاتے ہیں ہم شہریوں کی تو بات چھوڑیں۔ کاش وزیر اعلیٰ ، وزیر صحت اور سیکرٹری صحت پنجاب صرف بخشیش دینا منع ہے کے بورڈ لگانے کی بجائے بخشیش لینے والوں کا مکو ٹھپیں تو زیادہ بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭
پولٹری ٹریڈرز کا ہڑتال کرنے کا ہتھکنڈا۔
چند روز سے سوشل میڈیا پر مہم چلائی جا رہی ہے کہ عوام برائلر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو لگام دینے کے لیے صرف 15 دن برائلر کا گوشت خریدنا بند کر دیں تو لوگوں کی بڑی تعداد نے اس مہم کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ کاش یہ سلسلہ یونہی برقرار رہے اور ہر مہنگی چیز کی خریداری بند کرنے کا شعور ہمارے عوام میں بیدار ہو تو گراں فروش مافیا کو لگ پتہ جائے کہ کس سے متھا لگایا ہے۔ عوام سے بڑی طاقت کوئی نہیں یہ اگر متحد ہو جائیں مل کر فیصلہ کریں تو حکومتیں باقی نہیں رہتیں۔ گراں فروش مافیا تو چند ہفتوں کی مار ہے۔ گوشت ہو سبزی ہو یا پھل بس عوام مل کر 15 دن تک بطور امتحان ان اشیاءکا بائیکاٹ کریں تو دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ جونہی کوئی چیز مہنگی ہو صارفین اس کی خریداری بند کر دیتے ہیں۔ یوں وہ چیز سٹوروں میں دکانوں میں مارکیٹوں میں پڑی سڑتی رہتی ہے۔ یوں تو یہ گراں فروش مافیا کسی کے قابو میں نہیں آتا من مانی کرتا رہتا ہے۔
مگر عوام کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ ایک ماہ برائلر کی خریداری بند ہونے سے یہ سب مل کر کیاصرف مرغی کے گوشت کی دیگیں پکائیں گے نیاز بانٹیں گے یا انہیں کاٹ کر چیل کوﺅں کو کھلائیں گے۔ یہ وہ جانیں مگر جب مال خراب ہونے لگے گا عوام خریدیں گے نہیں تو خود ان کے گھروں میں بھی گھی کے چراغ نہیں جلیں گے۔ وہاں بھی غریبوں کے گھروں کی طرح اماوس کی سیاہ رات بال کھولے ماتم کرے گی اور ان مرغی فروشوں کے ہاں بھی (معذرت کے ساتھ)
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
مرغیاں پر کھولے رو رہی ہیں
والے مناظر دیکھنے کو ملیں گے اور یہ بڑی عید پر لوگوں کو مفت مرغیاں تحفے میں دے کر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
٭٭٭٭٭