وزیراعظم سابقہ حکومت کو کوسنے کی بجائے مسائل حل کریں

محمد شہباز شریف بطور وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے آٹھ دن بعد کابینہ تشکیل میں کامیاب ہو ہی گئے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے وہ اکیلے ہی ہر طرف بھاگ دوڑ رہے تھے۔ وہ خود جتنے بھی مستعد ہوں لیکن ملک اکیلا بندہ نہیں چلا سکتا اس کے لیے ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس ٹیم میں شامل ہر رکن نے آگے اپنی ایک ٹیم بنانی ہوتی ہے تاکہ معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر یہ دیکھا جاسکے کہ کس شعبے میں کیا اچھائی اور کیا برائی اور جہاں اصلاح کی ضرورت ہے وہاں کون سے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں سے کابینہ کی تشکیل سے متعلق معاملات طے نہ پانے کی وجہ سے اس سلسلے میں جو تاخیر ہوئی اس کے باعث بہت سے کام متاثر ہوئے۔ شہباز شریف کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انھیں وزیراعظم کے طور پر ایک تباہ حال اور غیر مستحکم معیشت کو سہارا دینے کے لیے تقریباً ایک سال کا وقت ملا ہے جو سیاسی اختلافات کی وجہ سے کم تو ہوسکتا ہے، زیادہ ہرگز نہیں ہوگا۔
اقتدار سنبھالنے والے ہر حکمران کی طرح وزیراعظم شہباز شریف بھی سابقہ حکومت کو کوس رہے ہیں کہ اس نے چار سال ضائع کردیے اور اس دوران جو کچھ کیا گیا اس کے بارے میں جان کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے بیانات تو کوئی بھی دے سکتا ہے، اصل بات یہ ہے کہ عنانِ اقتدار ہاتھ میں آنے کے بعد آپ نے ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے کیا اقدامات کیے اور اپنے فیصلوں کے نفاذ کے لیے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ بات درست ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے تقریباً چار برس تک مہنگائی اور بے روزگاری کو اس حد تک پہنچا دیا کہ اب کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک سال کے قلیل عرصے میں ان مسائل کو کوئی ایسا حل فراہم کرسکے جو عوام کے لیے تسکین کا باعث بنے اور اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 2019ء میں بیل آؤٹ پیکیج لینے کے لیے حکومت نے کئی ایسی شرائط مان لیں جن کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہی ہوگا لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہباز شریف پہلی بار کسی بڑے انتظامی عہدے پر نہیں آئے، وہ تین بار ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں، لہٰذا انھیں مسائل کا نہ صرف بخوبی علم ہے بلکہ وہ ان اقدامات سے بھی واقف ہیں جو عوام کو ریلیف دینے کے لیے کیے جاسکتے ہیں۔
وزیراعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ پچھلے چھے دنوں سے وہ مختلف وزارتوں سے بریفنگ لے رہے ہیں اور مسلسل کام کررہے ہیں لیکن اس صورتحال میں شہباز شریف کو باقی تمام معاملات کو ایک طرف رکھ کر پہلے کابینہ کی تشکیل پر کام کرنا چاہیے تھا تاکہ وہ مسائل پر ٹھیک سے توجہ دینے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ ان کا یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ ہزاروں میگاواٹ کے نان ہائیڈل بجلی گھر غیر فعال پڑے ہیں اور ملک کے پاس نہ وافر تیل ہے نہ گیس۔ انھیں اس سلسلے میں سابقہ حکومت کے اقدامات کی تفصیلات بھی عوام کے سامنے لانی چاہئیں لیکن مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے وہ طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے جو وقت کی ضرورت ہے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے شہباز شریف نے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنے کا عندیہ دے کر صحیح سمت میں قدم اٹھایا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار ایک غیر مستحکم معیشت پر کتنا بھروسا کرتے ہیں۔
بین الاقوامی حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کا یہ عمل بھی درست ہے کہ انھوں نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو مسئلۂ کشمیر کے حل کے لیے خط لکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، خط میں مسئلۂ کشمیر کے علاوہ دیگر مسائل کے حل اور بھارت کے ساتھ پُر امن تعلقات کے قیام کی خواہش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان ہمیشہ ہی اپنے ہمسایوں کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات کا خواہاں رہا ہے لیکن بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات کے استوار ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ جموں و کشمیر پر بھارت کا ناجائز قبضہ اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں جن کی وجہ سے وہ خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور جارحیت کی وجہ سے اس کے تعلقات صرف پاکستان کے ساتھ ہی خراب نہیں ہوئے بلکہ چین، بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان سمیت اس کا کوئی بھی ہمسایہ ایسا نہیں جس کے ساتھ اس کے تعلقات خوشگوار ہوں۔ جموں و کشمیر کو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کا سب سے بڑا اور اہم ادارہ اقوامِ متحدہ بھی متنازع علاقہ قرار دیتا ہے اور تنازعے کے حل کے لیے اس کی قراردادیں بھی موجود ہیں جن پر بھارت عمل کرنے کو تیار نہیں۔
مسائل قومی ہوں یا بین الاقوامی، ان کا حل تلاش کرنے کے لیے وزیراعظم کو پہلے ان کی نوعیت کو پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سابقہ حکومت کو کوسنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ قوم یہ دیکھ چکی ہے کہ 2018ء سے اب تک اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے صرف سابقہ حکومتوں پر تنقید ہی کی اور اسی وجہ سے وہ کسی بھی مسئلے پر ٹھیک سے توجہ نہیں دے پائے۔ اب اسمبلیوں کی آئینی مدت ختم ہونے میں تقریباً ایک سال کا عرصہ رہ گیا ہے، اگر اس عرصے میں بھی صرف تنقید ہی کی گئی تو عوام جمہوریت اور جمہوری اداروں سے مزید بیزار ہوں گے، لہٰذا شہباز شریف کو چاہیے کہ اب وہ اپنی کابینہ کے ساتھ مل کر مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات پر توجہ دیں تاکہ مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔