اقلیتوں پر مظالم ، ماورائے عدالت قتل : ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال کو بدترین قرار دیدیا
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹس میں بھارت میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ رپورٹس میں کہا گیا کہ بھارت میں اقلیتوں پر مظالم، ماورائے عدالت قتل، صحافیوں پر تشدد اور انہیں ہراساں کرنے کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ایمنسٹی نے بھارتی سرکار پر شدید تنقید کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا کہ بھارت میں آزادی اظہارکی گنجائش کم ہو رہی ہے۔ بھارتی حکام نقادوں کو پابندیوں اور غیرقانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے خاموش کرا دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں، طالب علموں، صحافیوں اور آرٹسٹوں کو مقدمہ چلائے بغیر گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ مذہبی اقلیتوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ بھارت کے غیرقانونی زیر تسلط کشمیر میں پولیس نے 18 صحافیوں پر تشدد کیا۔ پولیس اور این آئی اے نے سول سوسائٹی کے رہنماؤں خرم پرویز، تین ساتھیوں اور پروینہ آہنگر کے گھر پرچھاپے مارے اور خاندانوں کو ہراساں کیا۔
تقسیم کے موقع پر ہندو لیڈروں نے اقلیتوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ان کے حقوق کے تحفظ اور برابر کے شہری ہونے کا یقین دلایا۔ آئین میں بھارت کو سیکولر سٹیٹ قرار دیا گیا۔ ہر دور حکومت میں ہندو لیڈر شپ نے بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ریاست کے سیکولر ہونے کے دعوے کیے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اپنی آبادی کے باعث قرار پاتا ہے جہاں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں مگر جمہوریت کے باقی تقاضے کبھی پورے نہیں ہوئے۔ آئین کی روسے ہی بھارت سیکولر سٹیٹ ہے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ بھارت نہ صرف سیکولر کے بجائے ہندو سٹیٹ ہے بلکہ جو کچھ جہاں ہوتا ہے اس کے شدت پسند ہندو ریاست ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ جاتا۔ ایسی شدت پسند ریاست جس میں ہر دور میں اقلیتوں کو ظلم و جبر کانشانہ بنایا گیا۔ ان کا جینا حرام کیا گیا اور مذہب تک بدلنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ ہندو شدت پسندی ہر دور میں موجود رہی مگر مودی حکومت کے دور ان یہ انتہائوں کو پہنچا دی گئی۔ نریندر مودی کی سرشت میں مسلمانوں سے نفرت پائی جاتی ہے۔ وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو اس صوبے میں ہزاروں مسلمانوں کو شدت پسندوں نے حکومتی سرپرستی میں زندہ جلا دیا۔ مودی کی اسی ظالمانہ و شدت پسندانہ ذہنیت کے پیشِ نظر امریکہ میں ان کے داخلے پر پابندی تھی۔
بھارت میں انتخابات جیتنے کے لیے ہر پارٹی پاکستان کارڈ استعمال کرتی ہے۔ جو پارٹی خود کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن باور کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ شدت پسند ذہنیت اس کے اقتدار کی راہ ہموار کر دیتی ہے۔ مودی کی طرف سے کئی بار پاکستان توڑنے کا دعویٰ اور اپنے اسے کریہہ اور مذموم اقدام پر فخر کیا جاتا رہا ہے۔ مودی کی پاکستان کے علاوہ اسلام دشمنی بھی مسلمہ ہے جو مودی کو شدت پسندوں میں مقبول بناتی ہے۔
مودی ہندوتوا اور اکھنڈبھارت ایجنڈے کے سرخیل مانے جاتے ہیں۔ اکھنڈ بھارت دوسرے لفظوں میں توسیع پسندی کا نام ہے جو تقسیم ہند کی نفی ہے۔ تقسیم ہند کو شدت پسندوں نے کبھی قبول نہیں کیا۔ وہ بھارت میں ہندو راج کی کارفرمائی چاہتے ہیں۔ دوسرے مذاہب کو ان کے بنیادی حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہر مذہب بھارت میں شدت پسندوں کے نشانے پر رہتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ زیادہ جارحانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے ہزار سال تک انہیں غلام بنائے رکھا لیکن ان کے ہاں نرم گوشہ کسی بھی اقلیت کے لیے نہیں ہے۔ سکھوں کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بدترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا اور وہ بدستور زیر عتاب ہیں جس سے وہ فطری طور پر مسلمانوں کے قریب ہو گئے۔ ان کی طرف سے ہندو شدت پسند اور سفاک ذہنیت کا ادراک تقسیم سے قبل کر لیا جاتا تو برصغیرمیں تاریخ کی سب سے بری ہجرت اور خونریزی نہ ہوتی۔ مسیحی برادری بھی بھارت میں محفوظ نہیں رہی۔ ان کی عبادت گاہوں کو جلائے جانے کے واقعات کبھی رُک نہیں سکے۔
ہندو شدت پسندی کے زیر اثر اقلیتوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیکولر آئین کے تخلیق کار ڈاکٹر امبیدکر نے زندگی کے آخری دور میں ہندومت چھوڑ کر بدھ مت اختیار کر لیا تھا۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے نیشنل مینارٹی کمیشن نے کہا ہے کہ بھارت میں تمام اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا کہ’’ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیانات دئیے جاتے ہیں اور ان پر حملوں، مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات عام ہو رہے ہیں‘‘۔اقلیتوں کے خلاف شدت پسند ہندو اکثریت کے معاندانہ رویوں کے باعث ہی بھارت میں دو درجن سے زائد علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ اقلیتوں پر مظالم کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے آواز بلند ہوتی رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی بھارت میں اقلیتوں کے خلاف مظالم پر تحفظات کا اظہار ہوتا رہا ہے یہ چونکہ بیانات کی حد تک ہوتا ہے جسے بھارت نے کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔ عالمی سطح پر ایک بے حسی سی پائی جاتی ہے جس سے بھارت کو اقلیتوں پر مزید مظالم کی شہ ملتی ہے۔ جس کے آج بدترین مظاہر مقبوضہ کشمیر میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ بھارت میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ ان کے حقوق کی بری طرح پامالی کی جاتی ہے اور یہ سب کچھ حکومتی سرپرستی میں ہورہا ہے۔ ہندو شدت پسند بھارت کو غیر ہندوئوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کا ظالم ہاتھ نہ روکا گیا تو بھارت میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے اور حالات اس طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور بااثر ممالک کو اس حوالے سے مصلحتوں سے بالا ترہو کر اپناکردار ادا کرنا ہو گا۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں زیادہ تر مسلم اقلیت کا عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے لہٰذا او آئی سی کو عملاً آگے آنے کی ضرورت ہے۔ متحدہ عرب امارات نے پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کم کرانے کی کوشش کی ، اس کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ کئی دیگر عرب ممالک بھی بھارت کے قریب ہیں وہ بھارت کو مسلمانوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے پر قائل کر سکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی بھارت کو آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کی طرف سے مثبت جواب نہ آنے پر ان کو اس کے ساتھ قطع تعلق کے آپشن پر غور ضرور کرنا چاہیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024