پیر ‘6 ؍ رمضان المبارک 1442ھ‘ 19؍ اپریل2021ء
میاں شہبازشریف کی ضمانت پر رہائی نہ ہو سکی
مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو اس بات پر جو دکھ ہو رہا ہوگا، اس سے انکار ممکن نہیں۔ لیگی کارکن تو منوں کے حساب سے مٹھائیاں خرید کر ایک دوسرے کا منہ میٹھا کرانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اب ان کا کیا بنے گا۔ دکاندار تو پہلے ہی رسیدوں پر ’’خریدا ہوا مال واپس نہ ہوگا‘‘ کا نعرہ مستانہ درج کئے ہوتے ہیں۔ اب یہ مہنگی مٹھائیاں پھینکنے سے تو رہے۔ آس پڑوس کے گھروں اور رشتہ داروں میں ضرور تقسیم کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح ان پھولوں کا کیا بنے گا جو گل پاشی کیلئے منوں کے حساب سے خریدے گئے اور وہ ہار کہاں جائیں گے جو میاں جی کو پہنانے تھے۔ اس وقت تو وہ سب؎
پھیکی پہ گئی چن تاریاں دی لو
تو اج وی نہ آئیاں سجناں
کہتے ہوئے کف افسوس مل رہے ہونگے۔ ویسے ہمارے شاعر بھی عجب سنگ دل ہوتے ہیں۔ پھولوں تک کو نہیں بخشتے۔ ایک ظالم نے تو پھولوں کے بارے میں کہا ہے؎
ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں
کچھ پھول تو کھلتے ہی مزاروں کیلئے ہیں
یوں اب ان استقبالیہ پھولوں کا بھی لگتا ہے کچھ ایسا ہی حال ہے مگر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جلد یا بدیر منظرنامہ یا صورتحال بدل بھی سکتی ہے۔ لیگی کارکنوں کو پھر موقع مل سکتا ہے کہ وہ اپنے رہنما کے استقبال کیلئے منوں پھول اور منوں مٹھائیاں لیکر رقص کرتے جیل کے باہر ان کا استقبال کریں۔ یہ تو سمے سمے کی بات ہے جو پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہو جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
جنوبی افریقہ کے ہیڈ کوچ نے پاکستان کیخلاف شکست کی ذمہ داری قبول کرلی
یہ بڑے حوصلے اور کمال کی بات ہے ورنہ کون شکست کا الزام اپنے سر لیتا ہے۔ جہاں دیکھو جیت کا تاج ہی سر پہ سجایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو خاص طور پر یہ بری روایت قائم ہے کہ شکست کے بعد ایک دوسرے پر شکست کی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے۔ یوں الزامات کی بارش ہوتی ہے اور تو پوں کے منہ کھل جاتے ہیں جس سے اصلاح کی بجائے مزید انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اب جنوبی افریقہ کے ہیڈ کوچ کا کیا کسی نے سر قلم کردیا ہے نہیں بلکہ اس کی تعریف ہی ہوگی کہ انہوں نے فراخدلی سے ہار کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔ یوں کھلاڑیوں کی بھی سبکی نہیں ہوتی اور وہ نئے ولولے اور دلجمعی کے ساتھ ایک بار پھر میدان میں اترتے ہیں۔ ہمارے ہاں شکست کے بعد جو گھمسان کا رن پڑتا ہے اس کی زد میں آکر بڑے کھلاڑی بھی حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔ ان کی توجہ بھی کھیل سے زیادہ الزامات اور مخالفانہ بیان بازی کی طرف ہوجاتی ہے۔ یوں مشکلات کا شکار کھلاڑی اور زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں بھی ہر ذمہ دار اپنی ذمہ داری قبول کرے تو باقی لوگوں پر اس کی الزام تراشی کی وجہ سے جو وبال آتا ہے وہ ختم ہوسکتا ہے۔ اس کی ہرجگہ ہمیں ضرورت بھی ہے۔ ہر انسان میں اتنی اخلاقی جرأت ضرور ہونی چاہئے کہ وہ دوسرا ہر الزام لگانے کی بجائے اپنی ذمہ داری قبول کرے۔
٭٭٭٭٭
ماموں کانجن میں زیادتی کے 10 سالہ ملزم کا ریمانڈ رو رو کر تھانہ سر پر اٹھا لیا
جناب یہ تو چوتھی جماعت کا طالب علم ہے اگر اس کی جگہ کوئی ایم اے پی ایچ ڈی کا طالب علم بھی ہوتا تو وہ بھی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ریمانڈ پر تھانہ ہی نہیں آسمان بھی سر پر اٹھا لیتا۔ قربان جایئے اس ہمارے پولیس کلچر پر جو دن دیکھتا ہے نہ رات۔ عمر دیکھتا ہے نہ مقدمات بس جس نے چمک دکھائی اس کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیتا ہے۔ اب یہ زیادتی کا کیس ہے اور اس میں 10 سالہ چوتھی کا طالب علم پکڑا گیا ہے۔ آفرین ہے ان پر بھی جنہوں نے اس ملزم کا چار روزہ ریمانڈ بھی دے دیا۔ الزام یہ ہے کہ لڑکے نے دو اور لڑکوں کے ساتھ مل کر ایک لڑکے کو اٹھا کر لے گئے اور اس کے ساتھ زیادتی کی۔ اب حقائق جلد سامنے آئیں گے۔ اس عمر کے بچوں کی یہ غلطی کتنے بڑے سزا کی مستحق ہے مگر یہ جو تھانے میں اس لڑکے نے رو رو کر شور مچا مچا کر آسمان سر پر اٹھا لیا تو اس کے شور شرابے سے بچنے کیلئے پولیس نے اس کے گھر والوں کو بلایا بالآخر اس کے دادا نے اس کے سامنے حوالات میں رہنا قبول کیا تاکہ اس کا شور شرابا رونا دھونا بند ہویہی ترکیب کارگر رہی اور اب دادا پوتا حوالات میں مزے سے ہیں۔ پولیس کو بھی آرام کا موقع مل گیا ہے یہ حال ہے ہمارے معاشرے کا جہاں ذاتی دشمنیاں کیا کیا گل کھلاتی ہیں…
٭٭٭٭٭
عید، روزے کا بتانا میری وزارت کا کام نہیں: شبلی فراز
لیجئے جناب وزیر کیا بدلا وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے بھی اپنا قبلہ تبدیل کرلیا۔ اب اس وزارت کے نئے وزیر نے چارج سنبھالتے ہی چاند کے طلوع ہونے کی پیدائش اور رونمائی کی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ اب وزارت مذہبی امور جانے اور رویت ہلال کمیٹی والے جانیں۔ یہ ان کی درد سری ہے کہ وہ چاند کب دیکھتے ہیں کہاں دیکھتے ہیں۔ اس کام کیلئے ان کی نظریں ہی کافی ہیں یا پھر ان کی جدید دوربینیں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اب چاند کی پیدائش اور اس کے نظر آنے کے امکان کی دردسری سے مبرا ہوگئی ہے۔ یوں کم از کم اب دوسرکاریک اداروں میں جو باہمی چشمک یا چپقلش پائی جاتی تھی اب ختم ہوجائے گی۔ اس لئے کہتے ہیں ’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘ تو جناب اب شبلی فراز چونکہ ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے وہ صرف شاعری نثر گاری میں چاند کے تذکرے پر اکتفا کریں گے اور بہت ہوا تو بس
چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں
جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا
پر ہی گزارہ کریں گے کیونکہ اب چن چڑھانے کی ان کی وزارت کو کوئی جلدی نہیں۔ ویسے تو حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ایک ادبی شخصیت کو سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کس بل بوتے پر دی گئی۔ کیا یہ ذمہ داری صرف خانہ پری کرنا ہوتی ہے…
٭٭٭٭٭