اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان میں عدمِ مساوات کی وجوہ پر تیار کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نیپرا اور اوگرا کے ناقص اقدامات کے باعث اصل صارفین پر مالی بوجھ بڑھ رہا ہے ۔ پاکستان میں نظام انصاف کا جھکائو امیر اور طاقتور طبقہ کی طرف نظر آتا ہے۔ سٹیٹ بینک مالیاتی شعبے میں کریڈٹ سہولتوں پر بڑھتی اجارہ داری پر قابو پانے میں بے بس دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح ایس ای سی پی سٹاک مارکیٹ پر لوگوں کا اعتماد بڑھانے میں ناکام رہا ہے ۔رپورٹ میں مزیدکہا گیا ہے کہ مسابقتی کمیشن منصفانہ قیمتیں یقینی بنانے میں غیر فعال دکھائی دیتا ہے۔ ریگولیٹری اتھارٹی بھی ملک میں اجارہ داری ختم کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے ۔ پاکستان میں امیر کو بہترین مواقع میسر ہیں جب کہ غریب آدمی روکھی سوکھی پر گزارا کرنے پر مجبو ر ہے۔ پاکستان میں غریب آدمی انصاف حاصل نہیں کرسکتا ۔
اقوام متحدہ کی حقائق پر مبنی رپورٹ سیدھے اور صاف الفاظ میں پاکستان میں ناقص طرزِ حکمرانی اور آئین و قانون کی بالا دستی کے فقدان کی نشان دہی کرتی ہے ، جس کے تحت پاکستان میں ترقی اور خوش حال طرزِ زندگی کے تمام مواقع اشرافیہ کو حاصل ہیں اور غریب عوام محض اپنے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرنے پر مجبور ہیں، حتیٰ کہ انصاف کا حصول اتنا مہنگا اور پیچیدہ ہے کہ غریب آدمی اب کسی بھی طرح حاصل نہیں کر سکتا ۔ جہاں یہ حقیقت ہے کہ رپورٹ میں جن مسائل اور حقائق کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ موجودہ حکومت کو ورثہ میں ملے ہیں۔ وہاں یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ حکمران اُسی ناقص نظام میں مثبت تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تو تھے مگر عملاً وہ اصلاحات لا نہیں سکے جن سے عوام کا طرز زندگی بہتر ہو سکتا تھا۔ حالات کے منظر نامہ کا جائزہ لیا جائے تو مسائل میں ماضی کی نسبت کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے ۔اوگرا اور نیپرا کے ناقص اقدامات کی وجہ سے خطِ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرتے 70 فیصد سے زائد عوام آج اگر ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہیں تو ان اداروں کے ناقص اقدامات کے آگے بند باندھنا کیا حکمرانوںکی ذمہ داری نہیں تھی ؟ اس پس منظر میں رپورٹ میں یہ کہا جانا کہ پاکستان میں قانون بالا دست نہیں، مبنی برحقیقت ہے ملک میں قانون کی رٹ قائم نہیں ، اس سے حکمران اِنکار نہیں کر سکتے ۔ قومی اداروں میں اجارہ داری قائم ہے ، منظم مافیا ہر جگہ چھا چکا ہے۔ اس کا اعتراف وزیر اعظم عمران خان خود بار بار کر چکے ہیں۔ نظام میں اِصلاح کی عملی کوششیں نہیں کی گئیں اگر کوئی قدم اٹھایا بھی گیا ہے تو کامیابی کیوں نہیں ہوئی اس کا جواب بھی حکمران ہی دے سکتے ہیں ۔با اختیار حکومت کے ہوتے ہوئے منظم مافیا اتنا حاوی کیسے ہوگیا کہ حکومت کی مفاد عامہ کی ہر کوشش کو ناکام بنا رہا ہے۔ یہ سوچنا ان حکمرانوں کا کام ہے جو اقتدار میں آنے سے قبل دعویدار تھے کہ اقتدار میں آتے ہی ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ ہر طرف عدل وانصاف کا پرچم لہرا رہا ہوگا اور انصاف غریب آدمی کو اس کی دہلیز پر ملے گا ۔ ملک کی دولت اور وسائل دولت پر عوام کا یکساں حق ہوگا ۔ قانون اتنا بالا دست ہوگا کہ کوئی طاقتور سر اٹھا کر نہیں چل سکے گا۔ افسوس موجودہ منظر نامہ اس کے واقعی برعکس ہے۔ عوام ماضی میں بھی گوناگوں مسائل کاشکار تھے۔ مہنگائی اور بے روز گاری سے عاجز تھے۔ اب پہلے سے کہیں زیادہ پریشان ہیں۔ وزیراعظم تسلیم کر چکے کہ کوشش کے باوجود غریب عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکا۔ایک طرف تجربہ کا فقدان، دوسرا ملک میں مسلسل لاقانونیت کا راج اور اس سے بڑھ کر سیاسی انارکی کی انتہا۔ یہ سب مسائل اُسی صُورت حل ہو سکتے تھے جب خلوص نیت سے ان پر توجہ دی جاتی۔ ملکی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھی۔ کورونا نے اس پر مزید ضرب کاری لگائی۔ قرضوں کا بوجھ پہلے ہی ناقابل برداشت تھا، اب اس بوجھ میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوا ہے ۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی کے دعوے تو کیے جاتے ہیں، لیکن قانون کی عدم بالادستی کے باعث ان کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پائے۔ وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالتے ہی سادگی اور کفایت شعاری ایسے سنہری اصول اپنانے کا اظہار کیا تھا، یقین دہانی کرائی گئی کہ حکومت کے اخراجات کمزور معیشت پر بوجھ نہیں ہوں گے مگر عملاً ایسا نہیں ہو سکا۔ آج کسان ماضی کی نسبت زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ صنعتی شعبہ ترقی نہیں کر سکا جس سے برآمدات کا ہدف پورا نہیں ہو سکا، جو تجارتی شعبے میں ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔ غیر پیداواری اخراجات پر قابو نہیں پایا جا سکا، غیر ضروری درآمدات نہیں روکی گئیں جن سے کثیر زر مبادلہ کی بچت ہو سکتی تھی۔ قرضوں کی ادائیگی کا انحصار صرف پٹرولیم مصنوعات اور توانائی کے نرخوں میں اضافہ کر کے غریب عوام کی جیبوں سے رقم نکلوانے پر کیا گیا یا اس مقصد کے لیے مزید سودی قرضے حاصل کئے گئے جو معیشت میں مزید خرابی کا باعث بنے ۔ غریب عوام کوسستا اور فوری انصاف کیوں نہیں مل رہا۔ حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ ان کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ حکومت کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے مگر اس سے بھی انکار ممکن کہ حکمران طرز حکمرانی میں بہتری لا کر اور قانونی کی بالا دستی قائم کر کے تمام مسائل و مشکلات پر قابوں پا سکتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024