ضیا شاہد کی یادیں(سپیڈبریکر،میاں حبیب) میں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز 1988 میں بطور الیکشن رپورٹر کیا۔ جون کی جھلسا دینے والی گرمی تھی۔ مجھے اسائنمنٹ ملی کہ مسافروں کا سروے کیا جائے کہ ان انتخابات میں کس جماعت کو ووٹ دیں گے اور وہ کسے وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ریلوے اسٹیشن سے پی آر ٹی سی کی بسیں چلتی تھیں جو مسافروں کے لیے سب سے اچھا نقل وحمل کا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں شدید گرمی میں سارا دن مسافروں کے ویوز حاصل کرتا رہا شام کو آفس جا کر خبر بنائی اگلے دن وہ خبر صفحہ اول پر نمایاں طور پر شائع ہوئی میں بہت خوش تھا کہ میرا سروے ہٹ ہو گیا۔ جب دفتر پہنچا اور ضیا صاحب نے رپورٹرز کی میٹنگ لی تو انھوں نے مجھ پر چڑھائی کر دی بڑا شوق ہے رپورٹر بننے کا دفتر میں بیٹھ کر فرضی سروے کر کے رپورٹر نہیں بنا جاتا میں وضاحت کرنے کے لیے بولنا چاہتا لیکن وہ نان سٹاپ بولتے جاتے میں خاموش ہو گیا۔ لیکن میرے اندر آگ لگی ہوئی تھی کہ میں شدید گرمی میں اتنی محنت کر کے آیا ہوں اور انہوں نے کہہ دیا ہے کہ تم نے فرضی سروے کیا ہے میٹنگ کے بعد میں نے سارے نوٹس اٹھائے جس میں ایک ایک مسافر کا نام اور اس کے ویوز لکھے ہوئے تھے لے کر ان کے کمرے میں چلا گیا میں نے نوٹس ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ یہ میرے نوٹس ہیں میں شدید گرمی میں اتنی محنت کر کے آیا ہوں آپ نے میری کلاس لے لی ہے انھوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ مجھے پتہ ہے آپ نے بڑی محنت کی ہے لیکن آپ کے اعدادوشمار کے ٹوٹل میں غلطی ہے جس کی وجہ سے تمہیں احساس دلانے کے لیے میں نے ایسا کیا ہے۔ ان کے اس ابتدائی سبق نے ساری عمر کے لیے مجھے محتاط کر دیا وہ سکھانے کا انسٹیٹیوٹ تھے ان کے نزدیک انسان کو محنتی ہونا چاہیے وہ سب کچھ سیکھ سکتا ہے۔ انہوں نے واجبی سی تعلیم رکھنے والوں کو بھی صحافت کا سٹار بنا دیا 1988 کا الیکشن ختم ہوا تو پورے الیکشن سیل کی چھٹی ہو گئی ایک میاں غفار اور ایک میں ہم دونوں کو مستقل جاب مل گئی میاں غفار ایجوکیشن کی بیٹ کرنے لگے اور مجھے خوشنود علی خان چیف رپورٹر کا اسٹنٹ بنا دیا گیا میں فیلڈ کی رپورٹنگ کرنا چاہتا تھا لیکن شاید میرے لیے وہ بہتر تھا ان کے نائب کے طور پر کام کرنے سے میں نے بہت کچھ سیکھا انتظامی طور پر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران خوشنود علی خان اسلام آباد نوائے وقت کے بیورو چیف بن گئے اور ضیا شاہد مجھے اور رانا طاہر کو بعد میں ایک سازش کے ذریعے فارغ کر دیا گیا پھر ہم میاں نواز شریف کے ساتھ ملاقاتوں میں نیا اخبار نکالنے کی پلاننگ کرتے رہے اور آخر کار اکبر بھٹی کے ذمہ لگایا گیا کہ آپ ضیا شاہد کے ساتھ مل کر اخبار نکالیں اس وقت کوئی نیا اخبار نکالنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ہم نے دریا میں چھلانگ لگا دی ضیا شاہد نے مجھ جیسے جونیئر بندے پر اعتماد کرتے ہوئے جسے ابھی صحافت میں آئے 3سال ہوئے تھے انچارج رپورٹنگ سیکشن لگا دیا پھر کچھ عرصہ بعد اکبر بھٹی سے اختلاف کے باعث ضیا شاہد نے روزنامہ پاکستان کو خیر باد کہہ دیا ایک دن مجھے ضیا صاحب کا فون آیا اور کہنے لگے کہ آپ آدھے گھنٹے بعد آفس سے باہر نکل کر فلاں جگہ آجاو میں آرہا ہوں مجھے گاڑی میں بیٹھایا اور اپنے گھر 5 این ماڈل ٹاؤن لے آئے میں نے پوچھا سر اب کیا پروگرام ہے کہنے لگے اب ہم اپنا اخبار نکالیں گے میں نے کہا اتنا سرمایہ کہاں سے آئے گا ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کو پارٹنر بنائیں گے وہ قومی اخبار کے مالک الیاس شاکر سے بہت متاثر تھے مجھے اکثر کہا کرتے تھے یار اس نے کراچی میں اخبار نکالا ہے ہم کیوں نہیں نکال سکتے بحث مباحثہ کے بعد اس پر اتفاق ہونے پر اخبار کے نام پر گفتگو ہوئی تجویز کردہ ناموں میں ایک نام میرا پاکستان بھی تھا چونکہ ضیا صاحب نے پاکستان اخبار کے اجراء میں بڑی محنت کی تھی ان کو اس نام سے بڑا لگاو تھا وہ میرا پاکستان کے نام کا ڈیکلریشن لینا چاہتے تھے میں نے مخالفت کی اور کہا کہ یہ ایسے لگتا ہے جیسے میرا بھی تو ہے آخر خبر اخبار سے ہوتا ہوا خبریں فائنل ہوا پھر اس پر انہوں نے کچھ اور دوستوں سے بھی مشورہ کیا اور آخر کار روزنامہ خبریں نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ روزنامہ پاکستان کے اونر اکبر بھٹی صاحب بھی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے میں پاکستان نہیں چھوڑنا چاہتا تھا ایک دن ضیا صاحب نے میاں غفار اور محمد سلمان کے ذریعے مجھے بلوایا اور پھر ایک لمبا چوڑا لیکچر دے کر کہنے لگے کیا ہم نے ساری عمر لوگوں کی نوکریاں کرنی ہے آو اور اسے سنبھالو پھر ہم نے رپورٹنگ ٹیم تشکیل دی کئی دوست رپورٹروں کو زبردستی اغوا کر کے لے گئے۔ ضیا شاہد نے خبریں نکال کر ناممکن کو ممکن کر دیکھایا اور اسے بام عروج پر لے گئے انہوں نے پوری زندگی مایوسی کو کبھی قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا ہر حال میں آگے بڑھنے کا نام ضیا شاہد تھا وہ ہرقسم کے حالات سے بھی لڑتے رہے اور کئی سال تک بیماری کا بھی ہمت سے مقابلہ کیا۔ ان کے بلا کے اعصاب تھے خوفناک بیماری اور جواں سال بیٹے کی موت کے باوجود انھوں نے ہمت نہ ہاری ۔ میرا اکثر ان سے ٹیلیفونک رابطہ رہتا تھا ان کی وفات سے 20 روز قبل حسن نثار صاحب اور میں ان کی تیمارداری کے لیے گئے تو دوگھنٹے تک طویل نشست ہوئی جس میں حالات حاضرہ حکومت اپوزیشن کے کردار معاشرے کی ذمہ داریاں میڈیا کے معاملات پر گفتگو ہوتی رہی حسن نثار صاحب سے انہوں نے کہا کہ آپ کے ساتھ دو تین گھنٹوں کی ریکارڈنگ کرنا چاہتا ہوں یہاں گھر ہی ریکارڈ کروا لیں گے جس سے حسن نثار صاحب نے اتفاق کیا لیکن موت نے اس کا موقع نہ دیا۔
گاڑیاں بنانے والے پاکستانی اداروں میں قیمتیں گھٹانے کی دوڑ
Mar 16, 2024 | 13:40