ہمارا مذہب جو انسانیت کی تلقین کرتاہے اور ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے افراد ہیں جو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ رفاہ عامہ کے کاموں کیلئے وقف کردیتے ہیں اسی کارخیر کے حوالے سے ’’رہائی‘‘ کو کام کرتے ہوئے بیس سال ہوگئے۔’’رہائی‘‘ میں اس وقت ساڑھے سات ہزار وہ خطا کار بچے جن کی عمریں10سے18سال کی ہوئیں جن سے کوئی جرم سرزد ہوا یا کردہ ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ان کو سزاہوئی تو’’رہائی‘‘ نے انہیں علم کے زیور سے آراستہ کرکے ہنرمند بنانے کیلئے کمپیوٹرکلاسز، ٹیلرنگ کی کلاسز، پیپربیگ بنانے کی کلاسز اور دیگر کلاسز کا اجراء کرکے انہیں ہنرمند بنایاجارہاہے۔
رہائی کی دوسری کامیابی یہ ہے کہ جب یہ قیدی بچے رہا ہوجاتے ہیں تو اس کے باوجود بھی رہائی تنظیم کے لوگ ان سے رابطہ رکھتے ہیں تاکہ وہ جرائم کی دنیا میں دوبارہ داخل نہ جائیں۔ اس کے علاوہ ان ساڑھے سات ہزار قیدی بچوں کو معاشرے میں باعزت مقام دلایاجاتاہے اوراڑھائی ہزار خواتین کوہنرمند بھی بنایا جاتاہے انہیں قانون سے آگہی دی جاتی ہے اور پیشہ ورانہ ہنرمیں بیوٹیشن کا کام، اڈے کا کام بھی سکھایاجاتاہے اور اس کیلئے انہیں سرٹیفکیٹ بھی دیئے جاتے ہیں تاکہ انہیں جیل سے رہائی کے بعد انہیں باعزت زندگی گزارنے کا موقع ملے اور وہ کسی کی محتاج نہ ہوں۔
اس کے علاوہ کڑھائی سلائی میں بھی انہیں اس طرح ماہر کیاجاتاہے کہ وہ گھر بیٹھ کر اپنا روزگار حاصل کرسکتی ہیں دیگرتعلیمات میںان کے اندر یہ احساس اجاگر کیاجاتاہے کہ اگر وہ جرائم کی دنیا چھوڑ دیں تو معاشرے کے باعزت افراد بن سکتی ہیںاور اسی حوالے سے ’’رہائی‘‘ تنظیم کے نوعمربچوں میں جرائم کی شرح کم ہوئی ہے اور خواتین بھی دوبارہ جیل میں آنے کی خواہش نہ لے کر وہاں سے رخصت ہوتی ہیں لیکن ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ جو خواتین منشیات کے جرم میں گرفتار ہوتی ہیں وہ اکثر دوبارہ آجاتی ہیں۔ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں جرائم کی شرح ملکی انتشار اور خاندانی پسماندگی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کا عنصر بھی نمایاں ہے لیکن ’’رہائی‘‘تنظیم کا اصل مقصد جرائم کے بعد جیل میںآنیوالے افراد کیلئے جیل کو اصلاح گاہ بناناہے۔ رہائی اسلام کی تعلیمات کے مطابق نوعمر بچوں اور مجبور خواتین کو جرائم سے روکنے کی باقاعدہ تنظیم سازی کرتی ہے اللہ بھی اپنے بندوں کو موقع اور معافی دیتاہے ’’رہائی‘‘ تنظیم بھی اسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
حکومت کو چاہیے کہ رہائی سے تعاون کرے ان کا ساتھ دے تاکہ پنجاب کی جیل کے علاوہ رہائی تنظیم دوسرے صوبوں تک بھی اس کارخیر کو پھیلائیں، حکومتیں تو ہمیشہ ایسے فلاحی اداروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اس کام کو رہائی کے بانیوں فرح عدیل اوران کے شوہر عدیل بڑے جیلوں کے قیدیوں تک پھیلانا چاہتے ہیں دنیا بھر میں بڑی جیلوں میں قیدیوں کو علم سے آراستہ کیاجاتاہے انہیں ہنرمند بناکر معاشرے میں ایک باعزت مقام دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔قید کے وقت کو کارآمد بنانا رہائی چلانے والوں کا خاص مقصد ہے اس پر وہ دن رات مشقت ومحنت کرتے ہیں۔
مجرم کو سدھار کر آگے بڑھانا تو بعد کا کام ہے مگر اس سے پہلے یہ بھی سوچنا ہے کہ آخر جرم کی اصل وجہ کیا تھی یقیناً جس طرح ہمارا معاشرہ انتشار کا شکار ہے والدین کے پاس وقت نہیں روزگار نہیں، طبی سہولیات موجود نہیں، ناخواندگی کی شرح بھی بڑھتی جارہی ہے، تو ان تمام وسائل کے ساتھ ایک بچہ تفریح حاصل نہیں کرسکتا وہ تفریح جوکہ ان خواتین کو جو نچلے درجے کی زندگی گزار رہی ہیں۔ زندگی ہنسنے اور محبت کرنے خود کو عزت دار سمجھنے کیلئے بہت ضروری ہے، کھیل کے میدان سجتے اور تفریح جن معاشروںمیں ہوتی ہے وہ ذہنی طور پرصحت مند افراد پیدا کرتاہے، تقریباً اندازے کے مطابق پنجاب کی43جیلوںمیں پچاس ہزار سے زائد ایسے مجرم ہیں جنہیں تعلیم دینا، ہنرمند بنانا معاشرے میں مقام دلانا حکومت اور معاشرے کے بااثرافراد کا فرض ہے جو وہ زکوٰۃ سے ادا کرسکتے ہیں۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ گذشتہ 26 سال سے پاکستان کے پسماندہ دیہی علاقوں کے کم وسیلہ خاندانوں کے بچوں میں فروغ علم کیلئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے تحت پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مجموعی طور پر 35 اضلاع کے پسماندہ دیہات میں 650 سکول 1 لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں جبکہ تقریباً 47 ہزار مستحق اور یتیم طلبہ و طالبات کی مکمل تعلیمی کفالت کی ذمہ داری بھی ٹرسٹ نے اٹھا رکھی ہے اس مناسبت سے کتب، کاپیاں، یونیفارم، سکول بیگ، سٹیشنری آئٹمز اور سردی گرمی کے موسم کی مناسبت سے کپڑے ٹرسٹ کی جانب سے ان 47 ہزار سے زائد یتیم و مستحق بچوں کو مفت مہیا کیے جارہے ہیں۔
کرونا وبا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران، سخت مالی مشکلات کے باوجود غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے اپنے سکولوں کے بچوں کو تعلیم دینے کااور ان کی تعلیمی کفالت کا سلسلہ ان کے گھروں پر بھی جاری رکھاہواہے۔
وسائل سے محروم بچوں کو تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے لئے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کو کثیر سرمائے کی ضرورت رہتی ہے اس ضمن میں لوگوں کے عطیات ہی غزالی ٹرسٹ کا کْل حصہ ہیں۔بلاشبہ معاشرے میں اس ذمہ داری کے احساس سے فروزاں مخیرحضرات آج بھی ایسے بے شمار ٹرسٹ کے ساتھ تعاون کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں لیکن لاک ڈائون کی وجہ سے غزالی ٹرسٹ اوربہت سی ایسی تنظیموں کو مشکلات کاسامنا کرناپڑ رہاہے آیئے اپنی زکوٰۃاور صدقہ خیرات دیں۔
گاڑیاں بنانے والے پاکستانی اداروں میں قیمتیں گھٹانے کی دوڑ
Mar 16, 2024 | 13:40