ٹکٹکی
حیرت کی بات ہے،پاکستانی بچے غیرسیاسی ہونے کے باوجود’’یُوٹرن‘‘لینے میں ماہر ہیں۔ان میں بعض تو ایسے چنٹ ہوگئے ہیںکہ اصلی حالت میں برقرار رکھنے کی خاطر اُنھیں فِرج میں محفوظ کرلینا چاہیے۔پہلے ہم ملتان کے اُس چھے سالہ چیمپین کی بات کرتے ہیں جوچندروزقبل ایک شاہراہ پر دن دہاڑے لینڈکروزر چلاتے ہوئے دھرلیا گیا تھا۔گاڑی کے شیشے کھلے ہوئے تھے کیونکہ برخوردار ہواخوری کے مزے بھی لُوٹنا چاہتے تھے۔دوسری گاڑیوں والے یہ دیکھ کر دم بخود تھے کہ اتنی بڑی گاڑی بغیر ڈرائیور کے کیسے بھاگی جارہی ہے؟انھیں ڈرائیور نظربھی کیسے آتا،اس کا سرتو اسٹیرنگ سے محض چند اِنچ اُوپرتھا۔کسی نے پولیس کو اطلاع دی کہ کوئی رُوح ایک گاڑی کو ڈرائیو کررہی ہے۔پولیس نے گاڑی کا پیچھا کیا۔تھوڑی دیر کے لیے وہ لوگ بھی دہشت زدہ رہ گئے کیونکہ واقعی گاڑی میں کوئی ڈرائیور نظرنہیںآرہا تھا لیکن پھر ایک ’’یُوٹرن‘‘ آیا جس پر گاڑی کی رفتار کم ہوئی تو پولیس کو اسے روکنے کا موقع مل گیا۔تب پتا چلا کہ ڈرائیور صاحب ایک چھے سال کے منچلے تھے جنھوں نے والد کو چکمہ دے کر لینڈ کروزر کی چابی اڑائی اور اسے باہر نکال لائے۔اب وہ بے فکری سے سیر کررہے تھے۔شایداس اصول کے تحت کہ__میری لینڈ کروزر،میری مرضی!ابھی یہ واقعہ ذہنوں میں تازہ تھا کہ ایک وفاقی وزیر اپنے کمسن بیٹے کے ساتھ پجارو میں بیٹھے نظر آئے جواُسے چلارہا تھا۔یہ وہی درازقد،دراززلف کراماتی وزیر ہیں جن کے بابرکت ہاتھوں میں پہنچ کر ایک مطعون مشروب،مسنون مشروب میں تبدیل ہوگیاتھا۔جب وڈیو وائرل ہوئی تو موصوف نے وضاحت دی کہ ٹریفک قوانین کا اطلاق صرف ہائی ویز پر ہوتا ہے(کرلو جو کرنا ہے)۔
ہم نے اسکوٹر چلاتے بچوں کو تو بارہا دیکھا اورٹریفک اہل کاروں کو اُن سے اغماض برتتے بھی دیکھا جیسے یہ کسی قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔تاہم بڑی گاڑیوں کی ڈرائیونگ کے یہ واقعات ابھی سامنے آئے ہیں۔قانون کا عام تصور ہمارے یہاں یہ ہے کہ اسے توڑنے کے لیے بنایا جاتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے اسپورٹس کے مختلف شعبوں میں ریکارڈز ٹوٹنے کے لیے بنتے ہیں۔ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ آزاد ملک میں بھی اگر قانون کی پابندی کریں تو آزادی کا کیا فائدہ؟ہمارا ملک،ہماری حکومت،ہماری سڑکیں،ہماری گاڑیاں پھر کیوں ہم قدم قدم پر قانون سے خوف کھائیں؟قانون تو شہریوں کا خوف دور کرکے انھیں احساسِ تحفظ فراہم کرتا ہے نہ کہ ہم خود قانون ہی کو اپنے اوپر حاوی کرلیں؟پھریہ کہ جمہوری ملکوں میں عوام (اپنے نمائندوں کے ذریعے)قانون بناتے ہیں۔اب یہ منطقی بات ہے کہ جو شخص کسی چیز کو بنانے کا اختیار رکھتا ہے وہ اسے توڑنے کابھی مجازہے۔پس __ہم توڑیں گے،لازم ہے ہم بھی توڑیں گے۔
مغربی ملکوں میں قانون کے زور پر شہری آزادیوں کو سلب کرنے کاچلن عام ہے۔یہاں کُوڑانہ پھینکو،یہاں سگریٹ نہ پیو،یہاں گاڑی کی رفتار اتنی رکھو،یہاں تھُوکنا منع ہے،یہاں کُودنا منع ہے وغیرہ اور لوگ ہیں کہ ان ہدایات پر وفاشعارخاوندوں کی طرح عمل کرتے ہیں۔ہم کوکئی بیرونی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا۔یقین جانیے،کہیں بھی یہ منظرنظر نہ آیا(جو ہمارے یہاں عام ہے)کہ کوئی صاحب فٹ پاتھ پر مثانہ خالی کرنے کے بعد شلوار کا ازاربند منہ میںدبائے اطمینان سے ٹہل ٹہل کر سرِ عام کسی شرعی فعل کی تکمیل کررہے ہیں۔یہ ہے اصل آزادی، ایسے لوگوں کے اعصاب اتنے مضبوط ہوتے ہیں ہے کہ وہ اسی فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والے افراد (مردوں،عورتوںاوربچوں)کو پوری ڈھٹائی سے نظرانداز کردیتے ہیںکیونکہ ہاتھ اُن کے، شلوار اُن کی،ازار بنداُن کا،کسی دوسرے کو اعتراض کا کیا حق حاصل ہے؟جو اعتراض کاخطرہ مول لیتا ہے وہ ذلیل وخوار ہوتاہے۔لہٰذاعافیت اسی میں ہے کہ کسی کے نجی معالات میں دخل نہ دو۔استاد ذوقؔ بھی تاکیدکرگئے ہیں ؎
رندِخراب حال کوزاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو
پھر یہ کہ مغربی ملکوں میں قانون کا اطلاق پورے طور پر،مکمل غیر جانبداری سے اور مِن و عَن ہوتا ہے یعنی کوما،فل اسٹاپ کی بھی پاس داری کی جاتی ہے۔کسی قانون نافذ کرنے والے کارندے کو اختیار نہیں کہ اپنی حدودسے سرِ مُوتجاوز کرے۔ناروے میں ایک نوجوان عورت ایک نہرمیں غوطہ لگانے ہی والی تھی کہ وہیں کھڑے ہوئے ایک سیکیوریٹی گارڈنے آگے بڑھ کر یہ کہتے ہوئے اُسے روکا’’معاف کیجیے محترمہ،اس نہر میں نہانے پر پابندی ہے۔‘‘عورت نے سخت برہمی کا اظہار کیا’’تم نے مجھے اس وقت کیوںنہ روکا جب میں اپنے پہنے ہوئے کپڑے ایک ایک کرکے بیگ میں پَیک کررہی تھی؟‘‘گارڈ بولا’’میڈم،میری کیا مجال کہ میں آپ کو اُس کام سے روکتا جس پر قانوناً کوئی پابندی نہیں۔‘‘بچوں کی تربیت کے ضمن میں کسی سیانے کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ آپ کا بچہ اسی مثال پر عمل کرکے آپ کوبھری محفل میں رسوا کرتا ہے جو آپ گھر پر اس کے لیے قائم کرتے ہیں۔یورپ اورامریکہ کو چھوڑیں، مصرسے قانون کے احترام کی ایک ایسی خبر آئی ہے کہ خلافتِ راشدہ کے دور کی یادتازہ ہوگئی۔وہاں ایک جج صاحب کا اپنا موبائل فون دورانِ سماعت بجا۔کمرۂ عدالت میں فون کا بجنا خلافِ قانون ہے۔چنانچہ وہیں بیٹھے بیٹھے سب کے سامنے جسٹس محسن کلوب نے خود کو مجرم قراردے کر جرمانہ عائد کیا اور جرمانے کی رقم فی الفور اداکرکے اپنی جان چھڑائی۔ریاستِ مدینہ گلاپھاڑدینے والے نعروں اورتندوتیز تقریروں سے نہیں بنتی،عمل سے بنتی ہے لیکن ہم آج کل عمل سے زیادہ’’عامل‘‘پرانحصار کررہے ہیں۔
جہاں تک ٹریفک قوانین کا تعلق ہے،ان کی پابندی سے کسی قوم کے اجتماعی مزاج کی عکاسی ہوتی ہے۔اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانیوں کے مزاج میں بدنظمی،انتشار،بے صبری اور خلفشار ہے۔بڑے شہروں میں خودکار ٹریفک سگنل اس لیے لگائے جاتے ہیں کہ گاڑیاں چلانے والے ان کے مطابق ڈرائیو کریں لیکن ہمارے یہاں ہر سگنل پر تین چار ٹریفک اہلکار کھڑے ہوتے ہیں جن کا کام ٹریفک کے اشاروں پر عمل درآمدکرانا ہوتا ہے۔تاہم بے فکرے اور بداطوارنوجوان سرخ اشارہ توڑ کر نکل جاتے ہیں اور پولیس والے’’لُوٹ کر میرا جہاں چھُپ گئے ہو تم کہاں‘‘ کی تصویر بنے زمین میں گڑجاتے ہیں۔آج کل ٹریفک پولیس کی جانب سے شہریوں کو ٹریفک قوانین کے احترام پر راغب کرنے کے لیے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہار دیے جارہے ہیں۔اشتہاردینے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم وہ لوگ نہیں جو ترغیب سے رام ہوجائیں۔ہم تعزیز،سخت تعزیزاور مسلسل تعزیز کے بغیر کسی قانون کوگھاس نہیں ڈالتے ۔پولیس کی طرف سے کبھی کبھار جرمانوں کی مہم چلتی ہے جو ایک ہفتے میں دم توڑ دیتی ہے اور حالات پھر سے ’’معمول‘‘ پر آجاتے ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے، ملک بھر میں ہیلمٹ کی پہلی مہم فروری 1978ئکے لگ بھگ چلائی گئی تھی۔اب 43سال ہونے کوآئے لیکن ہیلمٹ بمشکل دس فی صد بائک والوں کے سروں پر نظر آتا ہے۔اس مجرمانہ غفلت کے باعث آئے دن حادثات ہوتے ہیں جنھیںہم قسمت کالکھا سمجھ کرصبر کرلیتے ہیں۔مارشل لااور’’مارشل لاپلَِس‘‘ کے ادوار میںبھی ہمارے یہاں ٹریفک میں نظم وضبط پیدا نہیں کیا جاسکا۔تو کیا اب ہر چورا ہے پر ٹکٹکی لگوائی جائے؟