کچھ لوگوں کو فطرت ایسا متحرک دل دے کر بھیجتی ہے جو انہیں اک پل قرار نہیں لینے دیتا۔ وہ ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ ان کی مصروفیت ذات سے زیادہ دوسروں کی بھلائی سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مقصد کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ فرخ سہیل گوئندی بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہے جس کی زندگی جدوجہد کے طویل سفر کی لکیروں سے بھری ہوئی ہے۔ اُس کے چہرے پر اس کی عمر سے زیادہ برسوں کے سفر کا اندراج ہے اس لئے کہ وہ شب و روز میں سے کام کے لئے زیادہ اوقات نکالنے کا ہنر رکھتا ہے۔ یہ ہنر اسے اس کے جنون نے بخشا ہے۔ دراصل اس کا من علم و فن کا ذخیرہ ہے اس لئے اس کی دانش اُسے ہر پل متحرک رکھتی ہے۔ خوش قسمت ہے اندر کی آواز سننے اور اس کے مطابق چلنے کی توفیق رکھتا ہے اسی لئے وہ اپنی زندگی کو سالوں میں شمار نہیں کرتا بلکہ کاموں کی حیثیت سے گنتا ہے۔ اس نے صبح، دوپہر، سہ پہر، شام کے اوقات کو کام کے حوالے سے ترتیب دے رکھا ہے۔ جس عمر میں بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے ہیں اس عمر میں فرخ سہیل گوئندی نے ایک ایکٹیوسٹ کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کر دیا تھا۔ پاکستان میں جمہوریت، عوامی حقوق، طبقاتی جدوجہد اور انسانی حقوق کے لئے چار دہائیوں پر پھیلی ہوئی اس کی جہد مسلسل کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور عجیب بھی۔ کم عمری میں پاکستان کے بڑے قومی جریدوں میں لکھنے کا آغاز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان کے اندر کچھ ہو تو وہ اظہار کا وسیلہ بھی ڈھونڈ لیتا ہے۔ 19 سال کی عمر میں اُس نے ایک ہفت روزہ میں وہ مضامین لکھے جن میں دانش، گیان اور جوش و جذبہ جھلکتا تھا۔ اس کے بعد کالم نگاری کرتے ہوئے ہزاروں کالم لکھے جن کے موضوعات سیاسیات، سماج، عالمی امور خصوصاً مشرق وسطیٰ اور کلچر سے وابستہ تھے۔ وہ پاکستان میں ترکی کی تاریخ، تہذیب وتمدن اور سیاست پر گہری گرفت رکھنے کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ترکی کی محبت میں وہ کھنچے کھنچے جاتے ہیں اور پھر وہاں کے ثقافتی اور ادبی خزانوں سے صندوق بھر کر واپس لوٹتے ہیں بلکہ بحیثیت ماہر امورِ ترکی اُن کی رائے کو عالمی نشریاتی اداروں اور ترکی کے سیاسی وصحافتی اداروں میں بھی خاص قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اب تک بارہ سے زائد کتابیں تحریر کرنے والے کی پہلی کتاب ذوالفقار علی بھٹو کی سوانح عمری ’’میرا لہو‘‘ تھی جو اُس نے صرف چوبیس سال کی عمر میں لکھی مگر اس کتاب کی معتبر حیثیت کا بھی یہ عالم ہے کہ آج بھی پاکستان کی معروف کتابوں میں شمار ہوتی ہے اور اب تک اس کے پچیس سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ مختلف ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کی تینتالیسویں سالگرہ کے موقع پر لیڈرشپ پروگرام اور امریکی کانگریس کے مذاکرے سے لے کر سٹیٹ آف دی ورلڈ فورم سمیت متعدد اہم ترین عالمی مذاکروں میں شرکت بھی ایک اعزاز سے کم نہیں۔
عمل اور علم کا جو امتزاج اس منفرد شخصیت کے حامل فرد نے اپنی زندگی میں برقرار رکھا اس کی ہمارے ہاں کم ہی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ اس کا جنون اُسے اک پل بیٹھنے نہیں دیتا۔ وہ مشاہدے سے علم کی توسیع چاہتا ہے اس لئے آوارہ گردی اس کی عادت بن چکی ہے۔ اب تک دنیا کے بے شمار ممالک کی فضائیں اس سے ہم کلام ہو چکی ہیں اور وہ اپنی گفتگو اور تحریروں سے ہمیں ان سے آگاہ کر چکا ہے۔ پچاس سے زائد ممالک کی سیاحت اور صرف ایک ملک ترکی کی تاریخ وتمدن، تہذیب وتمدن اور سماج کو جاننے کے لیے اس نے پینتالیس سے زائد سفر کئے ہیں۔ ان کے گلی کوچوں، پرانی عمارتوں، محلوں اور تاریخی نوادرات میں تاریخ کے اوراق کی گواہی تلاش کرتے ہیں اور مختلف حوالوں سے نئی نسل تک منتقل کرتے ہیں۔ دنیا کے بڑے ادب خصوصاً ترکی ادب تک میرے سمیت بہت سے لوگوں کی رسائی فرخ سہیل گوئندی کی کاوشوں سے ہونے والے تراجم کے ذریعے ہوئی۔ وہ کھوج اور تحقیق کو ساتھ لے کر چلتا ہے اس لئے اس کی تخلیقات میں بھی کھوج کا رنگ نمایاں ہے۔ اُن کے پاس جتنا علم، گیان اور دانش ہے اس کے لئے وہ مختلف پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔ کبھی ٹی وی پر الجھی نظریاتی گتھیوں کو سلجھاتے ہیں، کبھی کالموں کے ذریعے اور کبھی محفلوں میں مذاکرے کے ذریعے۔ آج کل سوشل میڈیا ان کا محبوب وسیلہ بن چکا ہے کیوں کہ اخبار، ٹی وی اور کمپیوٹر اب موبائل کی سکرین میں یکجا ہو چکے ہیں پھر اس میڈیا کی وسعت میں پورا جہان شامل ہے۔ وہ لوگوں کو بطور انسان سر اٹھا کر جینے اور معاشرے سے استحصال کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرنے پر اُکساتے ہیں۔ یہی جوش و جذبہ انہیں حبیب جالب کے میلے سے جوڑتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ فرخ سہیل گوئندی بات کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ وہ اختلاف رائے بھی رکھتا ہو تو چہرے کی مسکراہٹ ماند نہیں پڑنے دیتا۔ پچھلے دنوں پِلاک میں اس کے ساتھ ایک خصوصی مکالمہ رکھا گیا جس سے لوگوں نے پہلی بار اس فرخ سہیل گوئندی کو دیکھا اور سنا جس کا تن من ایک ہے۔ جو جرأت، دلیری مگر دانش کا پرچارک ہے۔ پہلی بار گفتگو سن کر ایسا لگا کہ یہ باتیں جاری رہیں، مکالمہ چلتا رہے۔ سوال و جواب سے لوگوں کے ذہنوں پر دستک ہوئی تو نئے نئے انکشافات سامنے آئے۔ ذوالفقار علی بھٹو فرخ سہیل گوئندی کا عشق ہے۔ یقینا اُس کی اور بھی بہت سی محبتیں ہوں گی مگر ان کا تذکرہ نہ کیا جا سکا کیوں کہ سامنے اس کی بیگم تشریف فرما تھیں۔ فرخ سہیل گوئندی ایک چالاک انسان ہے۔ اُس نے برسوں اس ملک میں رہنے والی ہمسفر کو پنجابی اور اُردو سے آشنا نہیں ہونے دیا۔ بہرحال ہم خوش قسمت ہیں کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024