مقبوضہ وادی میں مودی سرکار سیاسی سرگرمیاں تباہ کرنے پر تل گئی۔ جماعت اسلامی پر پابندی کے بعد یاسین ملک کی جماعت پر بھی پابندی عائد کر دی۔حریت رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی لگانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا نعرہ ‘‘جبری ناطے توڑ دو،جموں کشمیر ہمارا چھوڑدو ‘‘ نے مجاہدین میں جوش ولولہ پیدا کیا ہے۔ جدوجہد آزادی کشمیر میں متعدد جماعتیں جہاد میں مصروف ہیں۔ سید علی گیلانی بزرگ رہنما کی جدوجہد مثالی ہے جبکہ دیگر رہنما بھی آزادی کا دیپ جلائے بڑے صبرو تحمل کے ساتھ کارواں کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ یاسین ملک بھی اس قافلے کا ایک مجاہد ہے جو اپنے جان نثاروں کا ولولہ ٹھنڈا ہونے نہیں دیتا۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک بھی شوہر کے شانہ بشانہ مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ مشال ملک اپنی کم سن بیٹی رضیہ سلطانہ کے ہمراہ ان دنوں لاہور تشریف لائی ہوئی تھیں کہ کشمیر مشن کے چئیرمین کیپٹن شاہین بٹ نے مشال کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ تقریب شملہ پہاڑی لاہور کے علاقہ میں شب دیگ ریستوران میں منعقد کی گئی۔’’ شب دیگ ‘‘نام خود بتاتا ہے کہ یہ ایک کشمیری ریستوران ہے۔ کشمیر مشن کی بنیاد نیویارک سے شروع ہوئی اور لاہور شب دیگ پر ڈیرے جما لئے۔ مشال ملک ایک حسین چہرہ اور پر اثر جذبہ جدوجہد آزادی کشمیر میں ایک نیا دیپ ثابت ہو رہی ہیں۔ ایک پاکستانی کشمیری لڑکی کی مقبوضہ کشمیر کے ایک جہادی لیڈر سے شادی کسی جہاد سے کم نہیں لیکن یہ کٹھن راستہ مشال کا ذاتی انتخاب ہے اور وہ اس پر ثابت قدم ہیں۔مشال نے بتایا کہ ان کے شوہر سے ملاقات ہوئے چار برس ہو چکے ہیں۔ بیٹی بھی والد سے اداس ہے جبکہ والد آجکل بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔پاکستانی لڑکی سے شادی نے یاسین ملک کے خلاف بھارتی عداوت میں مزید زہر بھر دیا۔ کشمیری عوام بھارتی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ جدوجہد کشمیر کی ستر سالہ کاز میں مظلوم کشمیری اپنی لڑائی جیت چکے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کشمیریوں کو انکا بنیادی، پیدایشی اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حق آزادی دلانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ عمران حکومت کو چاہئے کہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کو رکوانے میں اور کشمیریوں کو انکا بنیادی پیدائشی حق آزادی دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔آزادی کشمیر نظریہ پاکستان ہے۔پاکستان میں کشمیری کمیونٹی اگر کشمیر کاز کے لئے متحد ہو جائے تو پوری پاکستانی قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اتحاد جدوجہد کا سفر آسان بناتا ہے۔ پاکستان کے لوگ کشمیر کے لئے جذباتی ضرور ہیں مگر عملی طور پر اپنی آواز بلند کرنے میں کاہلی کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ بے حس طبقہ تو یہ بھی بھول چکا ہے کہ 1947ء میں تقسیم برصغیر کے دوران کشمیری عوام نے مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر ناجائز قبضہ کرلیا۔ 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج جموں و کشمیر میں داخل ہوگئی اور بڑے پیمانے پر کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ پاکستانی سرحدی قبائل نے بھارتی قبضے کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور نہتے کشمیریوں کی مدد کے لیے بڑی تعداد میں ہتھیار اٹھا کر کشمیر میں داخل ہوگئے۔ بہادر قبائلیوں نے شدید جنگ کے بعد ایک وسیع علاقے سے بھارتی فوج کو مار بھگایا جو آزاد کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے والا بزدل بھارت جب پاکستان کے بہادر اور غیور قبائل کا مقابلہ نہ کرسکا تو فوراً اس مسئلے کر اقوام متحدہ میں لے گیا۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے قرار دیا کہ کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جائے اور انہیں اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کرلیں لیکن 71 سال گزرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں حق خودارادیت کے لیے ریفرنڈم نہیں کرایا گیا اور اس پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ بدستور برقرار ہے۔ اس عرصے میں وہ کون سا ظلم ہے جو بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں نہیں ڈھایا اور اب تک وہاں ہزاروں کشمیری شہید اور لاکھوں زخمی ہوچکے ہیں جب کہ بڑی تعداد میں خواتین کی بے حرمتی بھی کی گئی ہے۔ تاہم بھارتی مظالم پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ دوسری جانب 71 سال گزرنے کے باوجود کشمیریوں کا عزم اور حوصلہ برقرار ہے اور ان کی جدوجہد آزادی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ بھارت کا ہر ظلم ان کے جذبہ حریت کو مزید بھڑکا دیتا ہے اور ہر سال سینکڑوں کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادی کی شمع کو روشن رکھتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024