ہزار گنجی کے بعد دشمن کی اور ماڑہ بلوچستان میں گھنائونی واردات۔ 14 غیرمقامی باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ
مکران کوسٹل ہائی وے پر گوادر کے علاقہ اورماڑہ میں نامعلوم مسلح افراد نے جمعرات کے روز بسوں سے مسافروں کو اتار کر انکے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد ان میں موجود 14 غیرمقامی مسافروں کو الگ کیا اور انہیں بے دریغ فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ لیویز ذرائع کے مطابق کوسٹل ہائی ہنگول پارک کے قریب پندرہ سے زائد مسلح افراد نے پانچ سے چھ بسوں میں سے مجموعی 14 مسافروں کو شناخت کے بعد اتارا‘ انہیں پہاڑوں میں لے جا کر انکے ہاتھ باندھے اور پھر انہیں فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ ذرائع کے مطابق یہ واقعہ اورماڑہ سے 35 کلو میٹر دور پیش آیا۔ اس ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والی مسافر بسیں کراچی سے گوادر اور گوادر سے کراچی جارہی تھیں جنہیں روک کر مسافروں کو اتارا گیا اور 14 مسافروں کو باقاعدہ شناخت کرکے قتل کیا گیا۔ مقتولین کی میتیں اورماڑہ کے مقامی ہسپتال میں منتقل کر دی گئی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 12 مسافروں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی جو قریبی چیک پوسٹ میں آگئے جبکہ مسلح افراد مسافروں کو بے دردی سے قتل کرکے موقع سے فرار ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق مقتولین کا تعلق سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہے جو گوادر اور کراچی میں محنت مزدوری کرنے جارہے تھے۔ سکیورٹی فورسز نے موقع پر پہنچ کر علاقے کوگھیرے میں لے لیا اور ملزمان کی تلاش شروع کر دی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال نے ٹارگٹ کلنگ کے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزدل دہشت گردوں نے بے گناہ اور نہتے مسافروں کو قتل کرکے بربریت کی انتہاء کر دی ہے۔ یہ واقعہ ملک کو بدنام کرنے اور بلوچستان کی ترقی روکنے کی گھنائونی سازش ہے۔ دریں اثناء وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اورماڑہ ٹارگٹ کلنگ میں بھارت کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں بھارت کے عزائم کو سمجھنا اور اس کیلئے تیار رہنا ہے۔ قوم بھارتی جارحیت کیخلاف تمام اختلافات بھلا کر متحد ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارت مسائل حل کرنے کے بجائے بہانے بنا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بلوچستان میں بیرونی قوتیں ملوث ہیں جن میں بھارت سرفہرست ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار‘ قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف اور وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے بھی اورماڑہ دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ میاں شہبازشریف کے بقول اس دہشت گردی میں غیرمقامی افراد کو نشانہ بنانا ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔
ابھی گزشتہ ہفتے ہی سفاک دہشت گردوں نے کوئٹہ کے علاقہ ہزار گنجی میں دھماکہ کرکے 70 سے زائد افراد کو خون میں نہلایا جن میں سے 20 افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ دہشت گردی کی اس واردات میں بھی بالخصوص ہزارہ کمیونٹی کو ٹارگٹ کیا گیا تاکہ اسے فرقہ واریت کا رنگ دیا جاسکے اور اسکی آڑ میں پورے ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جاسکے۔ اب اورماڑہ دہشت گردی میں غیرمقامی باشندوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا ہے جس کا مقصد بادی النظر میں ملک میں علاقائی منافرت اور صوبائی تعصب کو پھیلا کر پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ہے اور حقائق و شواہد اس امر کی چغلی کھا رہے ہیں کہ اس گھنائونی دہشت گردی کے پیچھے ہمارے دیرینہ اعلانیہ دشمن بھارت کی سازشیں ہی کارفرما ہیں جسے بلوچستان میں کھل کھیلنے کا موقع مشرف آمریت کے دوران میسر آیا تھا کہ بلوچ قوم پرست نوجوان اپنے لیڈر اکبر بگتی کے ایک فوجی اپریشن کے دوران قتل پر بپھرے ہوئے تھے اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے پلیٹ فارم پر آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے وفاق سے بغاوت کے اعلانات کررہے تھے۔ بھارت کو تو ایسے موقع کی تلاش تھی جس کو بنیاد بنا کر وہ پاکستان کو سانحہ سقوط ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے بڑے سانحہ سے دوچار کرسکے اور پاکستان کی سلامتی ختم کرنے کی سازش پایۂ تکمیل کو پہنچا سکے۔ بھارت نے اس مقصد کے تحت ہی بلوچستان میں آزادی کی تحریک چلانے والے عناصر کی سرپرستی اور بھرپور فنڈنگ کی جنہوں نے بھارتی سرپرستی میں ہی گزشتہ تین ادوار حکومت میں غیرمقامی باشندوں کی بہیمانہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس وقت بھی مسافروں کو بسوں سے اتار کر انکی شناخت کے بعد گولی ماری جاتی تھی جبکہ ہزارہ کمیونٹی بھی اسی طرح دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتی رہی جیسے گزشتہ ہفتے ہزار گنجی کے دھماکے میں اہل تشیع ہزارہ کمیونٹی نشانہ بنی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہوا کہ بلوچستان کی کوئی بھی حکومت علاقائی تعصبات اور فرقہ واریت کا رنگ دینے والی دہشت گردی کی ان وارداتوں پر قابو نہ پاسکی اور بھارتی ایجنڈا کی تکمیل کرنیوالے ملک دشمن عناصر دندناتے رہے۔ یقیناً بھارت کو اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا مزید موقع ملا جس نے اپنی ایجنسی ’’را‘‘ کو پاکستان کیخلاف جاسوسی اور دہشت گردی کا نیٹ ورک بلوچستان میں قائم کرنے کیلئے متحرک کر دیا جس کی قیادت بھارتی جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو کو سونپی گئی۔ بے شک ملک کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے ان بھارتی سازشوں کو بھانپ کر انکے آلۂ کار دہشت گردوں کا سر کچلنے کی جامع منصوبہ بندی کی جس کے تحت بلوچستان اور کراچی میں ٹارگٹڈ اپریشن اور پھر نیشنل ایکشن پلان کے تحت شمالی وزیرستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں اپریشن ضرب عضب‘ اپریشن ردالفساد‘ کومبنگ اپریشن‘ اپریشن خیبرفور شروع کرکے دہشت گردوں کی سرکوبی کی گئی۔ اس سے بلوچستان میں امن کی بحالی ممکن ہوئی اور چین کے ساتھ گوادر پورٹ سے منسلک اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبہ کا آغاز کیا گیا۔ یہ منصوبہ بلاشبہ پاکستان کیلئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے جس کے اپریشنل ہونے سے بلوچستان کی سرزمین عملاً سونا اگلتی نظر آئے گی جبکہ پاکستان کی جانب علاقائی اور عالمی منڈیوں کے راستے کھلنے سے یہ ارض وطن اقتصادی استحکام اور قومی خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہو جائیگی۔ یقیناً بھارت کو سی پیک کے ذریعے پاکستان کی ترقی گوارہ نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ تو اسکی سلامتی تاراج کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا جس کیلئے اسے امریکہ کی معاونت بھی حاصل ہوگئی تھی۔ سی پیک کے ساتھ بھارت اور امریکہ کی دشمنی کا یہی پس منظر ہے جو آج بھی اسے سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔
بھارت کی مودی سرکار تو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا اعلانیہ ایجنڈا رکھتی ہے جو لوک سبھا کے موجودہ انتخابات بھی پاکستان دشمنی کے ایجنڈے کو فروغ دے کر لڑ رہی ہے اور اس مقصد کے تحت ہی پلوامہ خودکش حملہ کی آڑ میں مودی سرکار نے پاکستان کیخلاف جنگی جنون بھڑکانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ نتیجتاً مودی جنونیت کے ہاتھوں پاکستان ہی نہیں‘ پورے خطے اور پوری اقوام عالم کے امن و سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ نریندر مودی تو پلوامہ حملے سے بھی پہلے بلوچستان‘ آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر نظر بدگاڑتے ہوئے یہ اعلانیہ دھمکی دے چکے تھے کہ پاکستان کے ان علاقوں میں علیحدگی پسندوں کی سرپرستی کرکے انہیں بنگلہ دیش کی طرح پاکستان سے آزادی دلائی جائیگی۔ پھر بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے اس گھنائونی بھارتی منصوبہ بندی کی پرتیں بھی کھول دیں اور پاکستان کو مزید دس ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی بڑ ماردی۔ مودی سرکار ان بڑھکوں اور اعلانات تک ہی محدود نہیں رہی‘ اس نے کنٹرول لائن اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے مظالم کی انتہاء کرکے عملاً اس پورے خطے کو حالت جنگ میں ڈال رکھا ہے جبکہ بھارتی لوک سبھا کے انتخابات کے موقع پر مودی سرکار پاکستان دشمنی کے جذبات ابھار کر ہندو ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہے چنانچہ پلوامہ حملہ سے اب تک اسی ایجنڈے پر کاربند ہے جس کیلئے بلوچستان کی سرزمین اسے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر نرم چارہ نظر آئی ہے۔
اس وقت جبکہ سی پیک تکمیل کے مراحل میں ہے اور وزیراعظم عمران خان اسکے اپریشنل ہونے کے معاملات طے کرنے کیلئے چین جانیوالے ہیں۔ بھارت بلوچستان میں بدامنی اور انتشار پیدا کرنے کیلئے سرگرم عمل ہوگیا ہے تاکہ وہ چین کو بدگمان کرکے اسے سی پیک کو اپریشنل کرنے سے روک سکے۔ یقیناً ہماری سول حکومتی اور عسکری قیادتوں کو اس صورتحال کا مکمل ادراک ہے جو بھارتی سازشیں ناکام بنانے کیلئے ایک صفحے پر اور مکمل یکسو ہیں۔ اگر بھارت کو بلوچستان کو ٹارگٹ کرکے وہاں ایک ہفتے کے اندر دہشت گردی کی دو گھنائونی وارداتیں کرنے کا موقع مل گیا ہے تو ہمیں اپنے سکیورٹی انتظامات کا بہرصورت سنجیدگی سے جائزہ لے کر ہر اس خامی کو دور کرنا ہوگا جس سے ہمارے مکار دشمن کو فائدہ اٹھانے کا نادر موقع مل رہا ہے۔ یہ بلاشبہ ہمارے لئے بہت بڑا سکیورٹی چیلنج ہے اور چونکہ ہمارا مکار دشمن اپنی گھنائونی وارداتوں کے ذریعے خود کو بے نقاب کرچکا ہے جس کی بنیاد پر ہماری سکیورٹی فورسز بھی مکمل الرٹ ہیں تو اس موقع پر ہمیں بہرصورت ہر بھارتی سازش کو ناکام بنانا ہے۔ اس حوالے سے آج قومی اتحاد و یکجہتی کی بھی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے جس کے تحت ہمیں من حیث القوم بھارت کو دفاع وطن کیلئے عساکر پاکستان کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونے کا ٹھوس پیغام دینا ہے۔ خدا اس ارض وطن کو دشمن کی سازشوں سے محفوظ اور اپنی امان میں رکھے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024