انصاف ہماری دنیا سے کب کا مٹ چکا، اب صرف ظلم کا راج ہے، لاقانونیت اور درندگی انسانیت کو بھنھبوڑ رہی ہے۔ ظلم کا راج دیکھنا ہے تو فلسطین اور کشمیردیکھ لیں جہاں سچائی، اصول اور قانون کے لاشے بے گوروکفن پڑے ہیں۔ فلسطین اور مقبوضہ وادی میں ایک طرف درندہ صفت قاتل ہیں اور دوسری طرف مظلوم مقتول جن کی داد فریاد سننے والے گونگے بہرے ہو چکے ہیں۔ جنت ارضی کشمیر میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹتے استاد، طالب علم اور دیگر افراد اندھیر نگری کا شکار ہیں۔ جب مجسٹریٹ اور اسکے عملے کو بھارتی قابض فوجی تشدد کا نشانہ بنا کر سربازار رسوا کررہے ہوں، وہاں عام شہری کس سے داد رسی چاہیں گے۔استاد 7 برس جیل کاٹتا رہا مجسٹریٹ کو بھارتی فوجی دردندوں مار مار کر دنبہ بنادیایہ جنوبی کشمیر کے گاؤں بٹہ گْنڈ کے پیرزادہ محمد اشرف کی داستان ہے۔ 1990 میں شروع ہونے والا یہ واقعہ اس لامتناہی ظلم کی داستان کا محض ایک خونچکاں باب ہے۔ گورنمنٹ کالج سو پور میں بھارتی فوجی یونٹ آن دھمکی۔ انہوں نے طلبہ سے بیگار لینے کا فیصلہ کیاان طالب علموں کے ساتھ ایک لیکچرر کو بھی دھر لیاگیا۔ قسمت کا مارا یہ لیکچرر پیرزادہ محمد اشرف ایک ہی روز قبل استاد بھرتی ہوا تھا۔ نوجوان لیکچرر کا انکاربھارتی فوجیوں سے توتکار تک جاپہنچا۔ حکم عدولی پر مشتعل بھارتی فوجیوں نے اصول، قانون اور قاعدے کی بات کرنے پر لیکچرر کو آن کی آن میں بندوق کے بٹ مار کر زخمی کردیا۔ فوج اسے پولیس کے حوالے کردیتی ہے۔ پولیس اس سے بڑا کارنامہ انجام دیتے ہوئے اسکے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیتی ہے۔ اندیشہ نقص امن کے عنوان سے یہ قانون اس لیکچرار کی زندگی اندھیر کرکے رکھ دیتا ہے۔ نوجوان لیکچرار کے والدین اپنے لخت جگر کی تلاش میں ایک سے دوسرے کونے تک بھاگتے پھرتے ہیں۔ بہت دقتوں سے انہیں معلوم ہوجاتا ہے اور تصدیق ہوجاتی ہے کہ ان کا فرزند اودھم پور جیل میں قید ہے۔ معاملہ عدالت جاپہنچتا ہے۔ عدالت پرچہ خارج کردیتی ہے لیکن پولیس پھر مقدمہ درج کرلیتی ہے اور نوجوان لیکچرار کی قید بدستور قید ہی رہتی ہے، رہائی میں نہیں بدلتی۔ مقبول کھوکھر صحافی تھے۔ ہفت روزہ چتن کے رپورٹر اور فوٹوگرافر کے طورپر کام کرتے تھے۔ اردو میں شائع ہونے والا یہ معروف مجلہ تھا۔ انہیں ستمبر 2004 میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیاگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس الزام کے تحت اس پر کبھی مقدمہ نہیں چلایاگیا۔ اسے بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کی بھینٹ چڑھایاگیا۔ تین سال میں تین مرتبہ ہائیکورٹ نے ان کے مقدمہ کو ختم کردیا، خارج کردیا لیکن کون جانے اور کون مانے کہ قانون اور عدالت کا حکم کون سی چڑیا کا نام ہے؟
بھارتی قابض فوج کو حاصل خصوصی کالے اور شیطانی اختیارات سے متعلق کانگریس نے وعدہ کیاتھا جس سیاسی تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ ان کالے قوانین کی شدت اور ناانصافی کا درجہ اس قدر ہے کہ 2015ء میں بھارتی وزارت داخلہ کو بھی ان قوانین کا ناجائز استعمال ختم کرانے کیلئے ‘ کاغذی’ کاروائی کرنا پڑی۔دو جون 2012 کو جموں و کشمیر ہائی کوٹ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے سیکشن آٹھ کو قانون سے متصادم قرار دیا۔ غیرجانبدار قانونی ماہرین اور تجزیہ کار ان قوانین کو کالا اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلی پامالی قرار دے چکے ہیں۔کانگریس کی حمایت سے 2002ء میں آنے والے مفتی سعید نے پبلک سیفٹی ایکٹ کی بنیاد پر شہریوں کو ملوث کرنے کی مشق روک دی تھی۔بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں پبلک سیفٹی ایکٹ کو ’’lawless‘‘ قرار دیاتھا جسے جابر اور قابض ریاست آزادی کا حق مانگنے والی نہتی اور بے بس آبادی کو عقوبت خانوں میں ڈالنے کیلئے بے رحمی سے استعمال کررہی ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قیدیوں کی تعداد چودہ فیصد زیادہ ہوچکی ہے۔یہ قانون 1978 میں بنیادی طورپر جنگل کی لکڑی کی سمگلنگ کی روکنے کیلئے نافذ کیاگیا تھا جسے فوج نے عام شہریوں کیخلاف ہتھیار بنالیا پبلک سیفٹی ایکٹ’ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے مقابلے میں کئی درجے سفاک اور زہرناک ہے۔
مقبوضہ وادی میں قانون، عدالت اور سول اہلکاروں کی حالت کا اندازہ اننت ناگ کے علاقے میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ غلام رسول وانی اور اسکے عملے پر بھارتی قابض فوج کا بدترین تشدد اور ان کو حراست میں رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وادی قتل وغارت میں عام شہریوں سے کیا سلوک روا ہے۔
دوسری جانب بھارت نے اس نئی حکمت عملی کو بھی اپنا لیا ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حقیقی اور مشترکہ مزاحمتی قیادت کے خلاف تفتیش کا نیا طریقہ کار ہے۔ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ذریعے سید علی گیلانی کے صاحبزادوں، میر واعظ عمر فاروق سمیت دیگر حریت پسند رہنماؤں کو نوٹس جاری کئے گئے۔ نئی دہلی بلا کر ان کو ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک نہایت ہی افسوسناک واقعہ ابھی حال میں یہ ہوا کہ سید شبیر شاہ کی دو کم سن صاحبزادیوں کو نوٹس جاری کئے گئے۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ بھارتی کم ظرفی کی ذلت کی کس پاتال میں اترتے جارہے ہیں۔ گٹر ذہنیت سے کیسے کیسے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے ہیں۔
بی جے پی نے جاری بھارتی الیکشن کے لئے اپنے منشور میں ایک اعلان یہ بھی کیا ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آکر مقبوضہ کشمیر کے خصوصی آرٹیکل 370 کو آئین سے نکال دے گی۔ اس اعلان پر مقبوضہ وادی میں کٹھ پتلی اور بھارت نواز سمجھے جانے والے کشمیری لیڈر بھی پھٹ پڑے ہیں اور دہائیاں دے رہے ہیں کہ ایسا نہ کیا جائے۔ حالات و واقعات گواہی دے رہے ہیں کہ بھارتی ظلم وستم کے مٹنے کا وقت قریب آچکا ہے۔ ظلم کی اندھیری رات اتنی گہری ہوچکی ہے کہ اب سویرا زیادہ دور محسوس نہیں ہورہا۔ قدرت کا انسانیت سے یہ وعدہ بھی ہے۔ ظالم کا ہاتھ قدرت ضرور کاٹتی ہے۔ فلسطین اور کشمیر کی وادی میں بہتا مظلوموں کا خون قہر خداوندی بن کر نازل ہونے ہی والا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024