کہتے ہیں انسانوں کو آزمانے کے بھی اللہ تعالیٰ کے اپنے اصول ہیں۔ کسی کو بہت زیادہ دے کر آزماتا ہے اور کسی سے سب کچھ چھین کر۔کسی کو دکھ اور مصائب دے کر اور کسی کو دولت اور خوشیوں کے انبار دے کر۔یہ سب کچھ مجھے اپنے ایک واقف کار کی حالت دیکھ کر یاد آتا ہے۔ یہ صاحب کافی امیر آدمی ہیں بلکہ کچھ دوستوں کی رائے کے مطابق باری تعالیٰ نے انہیں بے حساب رزق سے نوازا ہے۔ دنیا کی تمام نعمتوں سے مالامال کیا ہے۔اسکی ظاہری حالت او ر دولت کی ریل پیل دیکھ کر لوگ رشک کرتے ہیںلیکن اسے یہ سب کچھ دے کر اللہ تعالیٰ نے اس سے رزق سے لطف اندوز ہونے کی طاقت واپس لے لی ہے کیونکہ وہ مختلف بیماریوں کا مجموعہ ہے۔ دنیا کے بہترین ڈاکٹروں تک رسائی ہے۔ادویات سے اسکی الماری بھری رہتی ہے لیکن صحت کی دولت سے محروم ہے جس وجہ سے وہ پرہیزی کھانا کھانے پر مجبور ہے اور وہ بھی چند لقموں سے زیادہ نہیں۔ کھانے کی میز پر جب انواع و اقسام کے کھانے چنے ہوتے ہیں ۔باقی گھر والے اور مہمان پیٹ بھر کر کھاتے ہیں۔ ان کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو صاحب خانہ ان سب لوگوں کو حسرت سے دیکھتا رہتا ہے اور مایوسی میں ابلی ہوئی بے ذائقہ قسم کی سبزی کے چند لقمے لے کر میز سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسکی زندگی میں سب سے بڑی حسرت یہی ہے کہ کسی دن وہ بھی صحت مند انسانوں کی طرح دنیا کی یہ تمام نعمتیں پیٹ بھر کر کھائے۔شاید کسی دن اللہ تعالیٰ اسکی یہ دعا قبول کر لے ۔ہمیں خود بھی اسکی حالت پر رحم آتا ہے اور صحت جیسی نعمت کا بارگاہ رب العالمین میں شکر ادا کرتے ہیں۔کچھ ایسے ہی حالات اسوقت ہماری حکومت کے ہیں۔ عمران خان کو اللہ تعالیٰ نے تمام سہولیات سے نوازا ۔ عزت،دولت،شہرت جیسی تمام نعمتیں عطا کیں لیکن وہ سب کچھ چھوڑ کر سیاست کے میدان میں آگیا اور خوامخواہ اپنے آپ کو آزمائش میں ڈال لیا ۔ خانصاحب مشکلات کے بہت سے دریا عبور کر کے کرسی اقتدار تک تو پہنچ گئے ہیں مگر حکمرانی کے مطلوبہ وسائل سے محروم رہے۔ وہ عوام کے ساتھ بہت سے وعدے کر کے اقتدار تک پہنچے تھے ۔عوام نے امیدیں باندھ لیں کہ اب وعدے پورے ہونیکا وقت آگیا ہے ۔خان صاحب خود بھی اس معاملے میں بہت پرجوش تھے مگر افسوس کہ خان صاحب کے وعدے اور عوام کی امیدیںسب خاک میں مل گئیں۔ خان صاحب نے کچھ کرنے کیلئے جب ہاتھ بڑھایا تو پتہ چلا کہ مفلس کی جیب کی طرح خزانہ تو بالکل خالی ہے ۔یہاں تک کہ حکومت چلانے کیلئے بھی خزانے میں کچھ نہیں۔ دوسرا یہ کہ اقتدار میں پہنچتے ہی خان صاحب کو اپوزیشن پارٹیوں نے اپنے حصارمیں لے لیا۔ خان صاحب نے اس حصار سے نکلنے کی حتی الوسع کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ اپوزیشن کو قانونی طور پر قابو میں رکھنے کیلئے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو اپنے ممبران کی تعداد خاصی کم نظر آئی۔ادھر ادھر سے مانگے تانگے کے ممبران سے خان صاحب نے اپنی حکومت تو قائم کر لی مگر حکومت والا رعب و دبدبہ قائم نہ کر سکا۔ یاد رہے کہ ہمارے سیاستدان کوئی نظریاتی قسم کے لوگ ہرگز ہرگز نہیں۔ انہیں جس طرف بھی سبزہ نظر آتا ہے ادھر ہی چل پڑتے ہیں۔ انکے مقاصد اور عمران خان صاحب کے مقاصد میں زمین آسمان کا فرق ہے اس لئے خان صاحب کے پاس وزراء تو بے شمار ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھ بھی رہی ہے مگر کام کرنے والے لوگ کہیں نظر نہیں آتے ۔ اس ٹیم کے ساتھ اگر خان صاحب اقتدار کے پانچ سال پورے کر لیتے ہیں تو یہ معجزہ ہوگا۔
کرپشن کا کیس سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت ملک سے کرپشن ختم کرنے کے وعدے پر اقتدار میں آئی تھی۔ حکومت نے بڑے جوش و جذبے سے کچھ شخصیات کو مجرم گردان کر انکے خلاف کیسز چلائے۔ ان میں جناب میاں نواز شریف صاحب،انکا داماد کیپٹن (ر) صفدر اور بیٹی مریم صاحبہ شامل تھے۔ ڈیڑھ سال نیب میں کیس چلا۔ جے آئی ٹی بنی۔ حکومت کے اربوں روپے اس کیس پر خرچ ہوئے ۔سزا ملیA۔جیل گئے۔ایک ماہ بعد سزا معطل ہو گئی آزادی سے پھر رہے ہیں۔ دوسرے کیس میں میاں صاحب اندر گئے اب ضمانت پر گھر میں آرام فرما رہے ہیں۔حمزہ شہباز جو کرپشن میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ نیب انہیں پکڑنے گئی لیکن آرام سے ضمانت کراکر حکومت کے خلاف تقریریں کرتے پھر رہے ہیں۔چھوٹے میاں صاحب پر الزام لگا۔ اریسٹ ہوئے۔ دھڑلے سے پی اے سی کے چئیرمین بنے ۔قید جیل کی بجائے منسٹرز انکلیو میں پر تعیش طور پر گزاری۔ اب لندن پھر رہے ہیں۔ زرداری صاحب اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف بھی منی لانڈرنگ کے سینکڑوں کیسز سامنے آچکے ہیں بشرطیکہ میڈیا کو سچ مان لیا جائے تو۔لیکن انکے خلاف حکومت اب تک کچھ بھی نہیں کر سکی نہ ہی شاید کچھ کر سکے۔سندھ اسمبلی کے سپیکر جناب آغا سراج درانی کو پکڑا مگر سندھ کارڈ سامنے آگیا ہے۔دیکھیں کیا ہوتا ہے؟حنیف عباسی صاحب کو منشیات کی سمگلنگ پر عمر قید کی سزا ملی۔ ابھی جیل گئے ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ سزا معطل کراکر گھر میں آرام فرما رہے ہیں ۔عوام حیران ہیں کہ بڑے لوگوں کو بڑے بڑے کیسز میں بھی آرام سے ضمانتیں مل جاتی ہیں یا سزا معطل ہو جاتی ہے۔ آزادی سے زندگی انجوائے کرتے ہیں۔ غریب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں مگر انہیں شنوائی کی تاریخ تک نہیں ملتی۔ اب تک ان تمام کیسز کے تجزیے سے دو حقائق سامنے آتے ہیں۔ اول یہ کہ ہماری تفتیشی ایجنسیاں یا تو نا اہل ہیں یا پھر حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے کترا رہی ہیں۔ دوسرا ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ بڑے لوگ قانون سے بالاتر ہیں۔ انہیں کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان جسے ہم اب’ ’ ریاست مدینہ ‘‘ بنا رہے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024