مجھے پہلے تو پنجاب اور بلوچستان کے کسانوں کا نوحہ لکھنا ہے اور ان بے گورو کفن لاشوں کا ماتم کرناہے جو چھتوں تلے دب گئیں یا ندی نالوں میں بہہ گئیں۔
میں ان لوگوں سے متفق نہیں جو پنجاب کے وزیر اعلی بزدار کی گورننس پر اعتراضات کرتے نہیں تھکتے تھے، جس روز پنجاب میں لاکھوں ایکڑ کھڑی گندم ا ور مکئی کی فصلیں تباہ ہوئیں، اسی روز پنجاب کے ریونیو بورڈ نے پھرتی دکھائی۔ میں صرف اے سی ماڈل ٹائوں لاہور کے دفتر کا احوال بیان کرتا ہوں جہاں آدھی رات کو پٹواریوں کو جگا کر ان کے ہاتھوں میںکسانوں کے واجب الادا ٹیکسوں کے نوٹس تھما دیئے گئے، صرف پاک عرب اسکیم کے پٹوار ی کو گیارہ سو افراد کے خلاف نوٹس دیئے گئے۔ اس کے بعد بھی کوئی کہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنی افسرشاہی سے کام نہیں لینا جانتے تو اسے اپنی عقل کا علاج کروانا چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان نوٹسوں کی تقسیم کے چند گھنٹوں بعد پنجاب میں سو میل کی رفتار سے ایک سونامی چلا، زوروں کی بارش اور ژالہ باری ہوئی اور گندم اور مکئی کی تیار فصل اوندھے منہ گر پڑی۔ زرعی انکم ٹیکس کے لاکھوں نوٹس سیلاب کی طغیانی، بارش اور ژالہ باری سے ردی بن گئے۔ اس وقت جب میں یہ سطور قلم بند کر ہا ہوں تو بزدار صاحب اپنی کابینہ میں بارشوں کے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ تباہی وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ ہوئی، جنوبی پنجاب میں تو لاکھوں لوگ سیلابی ریلے میں گھرے ہوئے ہیں۔ اب اگر ان سب کسانوں کو زرعی انکم ٹیکس کے نوٹس جاری ہوئے ہیںاور ان کی ادائیگی کے لئے صرف دس روز کی مہلت ملی ہے تو وہ ٹیکس کہاں سے دیں گے، صرف جیلوں کی ہوا کھائیں گے، چیئرمین نیب کہتے ہیں کہ کون کہتا ہے کہ ٹیکس چوروں کومنطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا کیونکہ جیلوں میں ایسے افراد بند ہیں جن کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا، اور اب یہ جو لاکھوں کی تعداد میں زرعی انکم ٹیکس کی وصولی کے لئے نوٹس جاری کر دیئے گئے تو کسانوں کی فصل تباہ ہو گئی، وہ ادائیگی کہاں سے کریں گے، بس منطقی انجام کو ہی پہنچیں گے۔ بہرحال ان بے چارے کسانوں کا کون پرسان حال ہو گا،۔ ملک کو بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ایک نئی حکومت،۔ ایک نیا اور کٹھن سفر، ایک نئے بدلے ہو ئے پاکستان کی تعمیر۔ یہ کام سہل اور آسان نہ تھا۔ خزانہ خالی۔ کاروبار ٹھپ۔ قرضوں کی بہتات، منی لانڈرنگ کی منہ زوری، اندرون ملک سازشوں کے جال۔ بیرونی دنیا سے تعلقات سرد مہری کا شکار، امریکہ کے ڈو مور کے مطالبات، افواج پاکستان چودہ برس سے دہشت گردی کی جنگ میں مصروف، افغانستان کی طرف سے پریشانیاں۔ بھارت کی نت نئی ریشہ دوانیاں۔مگر کپتان پچ پر تن کر کھڑا ہے۔ بائونسر پہ بائونسر سہہ رہاہے،۔ ا سکی ٹیم ہر چند کمزور ہے، ایک کے بعد ایک کھلاڑی آئوٹ ہو رہا ہے۔ کپتان کے لئے یہ منظر نامہ نیا نہیں ، وہ کئی بار شکست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے شکست سے دوچار کر چکا ہے،۔ ایسے ہی تو ورلڈ کپ اس نے پاکستان کے نام نہیں کر لیا تھا۔
کپتان نے پاکستان کے دوست ممالک سے رابطے تیز کئے ، کہیں سے مایوسی، کہیں سے دلاسے اور کہیں سے ہاسے،مگر کپتان نے دل چھوٹا نہ کیا۔ آخر اسے امید کی کرنیں نظرا ٓ گئیں۔ سعودی عرب نے فراخ دلانہ تعاون کیا، یو اے ای نے بازو کشادہ کئے اور چین نے روایتی دوستی، محبت اور قربت کا ثبوت فراہم کیا۔ اس اثنا میں کپتان کی ٹیم نے گھر کو سدھارنے کی طرف توجہ دی۔ ڈالر کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کیا،۔ معیشت کو آئی سی یو میں رکھ کر پروان نہیں چڑھایا جا سکتا، یہ ایسا پنچھی ہے جسے پرواز کے لئے آزاد فضائیں درکار ہوتی ہیں۔ وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ اپنا بھائو تائو خود طے کرتا ہے۔ مقابلے کی فضا اسے راس آتی ہے۔
حکومت سست روی سے سہی مگر یک سوئی اور لگن سے کام میں مصروف ہے۔ یوں اندھیروں میںشروع کیا جانے والا سفر اب روشنی کی کرنوں کی جانب بڑھ رہا ہے، ماضی کے لٹیروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کاا یک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیراعظم عمران خاں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایف بی آر کی مشینری تبدیلی کے خلاف گٹھ جوڑ کئے ہوئے ہے۔ وہ ٹیکس کولیکشن میں حکومت سے تعاون نہیں کر رہی ۔ اعدا دوشمار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے اسی دور کے مقابلے میں ا س سال ٹیکس کولیکشن کی شرح بہت کم رہی۔ اب حکومت کے سامنے دو راستے ہیں ، ایک تو یہ ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے کالے دھن کو سفید کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کرے یا ڈنڈا پکڑ لے اور ٹیکس چورں کا پیچھا کرے۔ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو کابینہ کے اگلے اجلا س تک مئوخر کر دیا گیا ہے مگر میرا احساس ہے کہ ٹیکس چوروںکے خلاف مہم تیز کر دی گئی ہے اورا یف بی آر یا ایف آئی اے کے لوگ ماضی کی ٹیکس ریٹرنوں اور بنک اکائونٹوں کی چھان بین کرنے میںمصروف ہیں، وزیر اعظم کی طرح مجھے بھی یہ اندیشہ ہے کہ یہ ایف بی آر کی طرف سے حکومت کو بدنام کرنے کی ا یک سازش ہے تاکہ لوگ اس حکومت کو برا بھلا کہنا
شروع کر دیں یا کوئی تحریک کھڑی ہو جائے، اس ساری ایکسر سائز میں بڑے مگر مچھوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ ایک دو ایکڑ کے مالک کسانوں کو جکڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ لوگ نہ توو کیل کر سکتے ہیں،۔ نہ انہیں کسی قانون کا علم ہوتا ہے،۔ ان کے لئے قانون وہی ہے جو پٹواری انہیں بتاتا ہے اور اگر پٹواری کو یہ ٹاسک دے دیا گیاہے کہ وہ ہر صورت میں ٹیکس جمع کریں تو پھر یہ انصاف کے عمل کے منافی ہو گا،۔ ٹیکس جمع کرانے کے لئے دس دنوں کی مہلت دی گئی۔ کسان کے پاس ان دنوں کوئی پیسہ نہں، اس کی گندم کی فصل ابھی کٹی نہیں،۔ اس سار ے عمل سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نہایت ہوشیارافسر شاہی نے حکومت کے خلاف ایک محاذ کھڑا کرنے کا پکا بند و بست کر دیا ہے۔ مجھے ایک ٹیکس وکیل نے بتایا کہ عام انکم ٹیکس کی ریکوری کے نوٹس بھی جاری ہوئے ہیں جبکہ ان ٹیکسوں کی ریکوری کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ اس لئے ان کے خلاف جیسے ہی اپیل کی جاتی ہے تو ٹیکس کی وصولی کا نوٹس واپس لینے کا فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے۔ یعنی حکومت کوخوش کرنے کے لئے دھڑا دھڑ نوٹس بھی جاری کر دیئے گئے مگر کمائی صفر، یہ چالاکی ایسی افسر شاہی کر سکتی ہے جوماضی کے حکمرانوں کی نمک خوار ہو، وزیر اعظم عمران خاں نے بھی ایسے ہی افسران کے خلاف شور مچایا ہے، کیا زما نہ آیا ہے کہ افسرشاہی کیو جہ سے ایک وزیراعظم بھی تنگ آ گیا ہے۔ ابھی تو حکومت کو آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اورا قتدارکی راہداریوں میں ایسی گھنائونی سازشیں کیا گل کھلائیں گی ا سکا اندازہ کرنا مشکل نہیں مگر جو عمران خان کو جانتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ وہ مرد میدان ہیں اور ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کریں گے۔ حکومت اور آئی ایم ایف کے مذاکرات چل رہے ہیں ،۔ ورلٖڈ بنک سے بھی نامہ و پیام ہو چکا ہے اور ممکنہ طورپر یہ ادارے پاکستان کو بیل آئوٹ پیکیج دینے کو تیار ہیں، یہ مرحلہ طے ہو جائے توپھر حکومت کے سامنے سے مشکلات کی دیواریں ہٹ جائیں گی ، افسر شاہی تعاون کرے یا نہ کرے، اس سے فرق نہیں پڑے گا ، حکومت کے پاس اس قدر وسائل آ جائیں گے کہ وہ گھروں کی تعمیرا ور نوکریوں کی فراہمی کے بنیادی وعدو.ں کی تکمیل کر سکے ووٹروں کے سامنے سرخرو ہو جائے گی۔ میری آنکھوں سے کسان بھائیوں کی بے اندازہ تباہی پر آنسو ابل رہے ہیں ، اس سے پہلے کوئٹہ کے بیس بے گناہوں کی شہادت پر میرا غم و غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ ابھی ابھی مکران ساحل پر ایک بس کو روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کئے گئے اور پھر چودہ ا فراد کو بے دردی سے چن چن کر شہپد کر دیا گیا ۔یہ کام پہلے گلگت میں ہوتا تھا اب کل بھوشن کے زیر سایہ چلنے والے نیٹ ورک نے بلوچستان تک اس قتل عام کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ رویئے زار زار کیوں۔ کیجئے ہائے ہائے کیوں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024