لوگ تنقید کرتے ہیں ہم فیصلہ جلد اور قانون کے مطابق نہیں کررہے، میں قانون بنانے والا نہیں اسے نافذ کرنے والا ہوں: چیف جسٹس
پشاور: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ریاست کی سب سے کم ترجیح عدلیہ ہے اور میں تنہا اس نظام کو درست نہیں کر سکتااور ہمارے بارے میں کوئی یہ نہ کہے کہ ہم نے ذمہ داری پوری نہیں کی. انصاف تول کر دیا جانا چاہیے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی.ہم نے مداخلت شروع کر دی ہے، اب ہم بھی ریاست میں آتے ہیں. ججز کی ذمہ داری انصاف کی فراہمی ہے. سچ جھوٹ کا فیصلہ کرنا ججز کا کام نہیں۔جمعرات کو پشاور میں ضلعی بار کے صدور کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ لوگ تنقید کرتے ہیں .ہم فیصلہ جلد اور قانون کے مطابق نہیں کررہے.میں قانون بنانے والا نہیں اسے نافذ کرنے والا ہوں۔ 1861 اور 1872کا قانون تبدیل نہ ہونے کی ذمے دار سپریم کورٹ نہیں.عدالتیں نہیں بنائی گئیں، ججز نہیں دئیے گئے اور اگر ریاست کی سب سے کم ترجیح عدلیہ ہے تو اس کا ذمہ دار میں نہیں۔ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے لیکن میں تنہا اس نظام کو درست نہیں کر سکتا. انصاف تول کر دیا جانا چاہیے. کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی. عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے. ہم نے مداخلت شروع کر دی ہے، اب ہم بھی ریاست میں آتے ہیں، ججز کی ذمہ داری انصاف کی فراہمی ہے. سچ جھوٹ کا فیصلہ کرنا ججز کا کام نہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بہت سے لوگوں کی ہم پر تنقید ہے کہ ہم فیصلے جلد اور قانون کے مطابق نہیں کر رہے، ہمیں اپنا ہائوس ان آرڈر کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اکیلے اس نظام کو ٹھیک کرنے کی استطاعت نہیں، مسائل حل کرنا تمام ججز کی ذمہ داری ہے اور جیسے بھی مصائب ہوں گے اس میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جو قانون کے ساتھ آتی ہیں اور میں قانون بنانے والا نہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کرانے والا ہوں جو سہولیات فراہم کی گئی ہیں انہیں کے تحت کام کر رہے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ دفتر نے کئی کیسز پر اعتراضات لگا کر اپنے پاس رکھا تھا.ان کیسز کو سننے یا نہ سننے سے متعلق فیصلہ ججز کو کرنا تھا دفتر کو نہیں، اس طرح کی 225پٹیشن میرے پاس آئیں جو روزانہ 10،10کر کے نمٹائیں۔ 19مارچ کو ریٹائر ہونے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس دوست محمد خان کی جانب سے فل کورٹ ریفرنس قبول نہ کرنے سے متعلق قیاس آرائیوں کے بارے میں چیف جسٹس نے بتایا کہ دوست محمد خان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے پوچھا کس دن ریفرنس لینا پسند کریں گے، انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ والے دن لوں گا، لیکن پھر انہوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر ریفرنس لینے سے انکار کردیا، میں نے انہیں فون کیا لیکن انہوں نے فون کا جواب بھی نہ دیا، اگلے روز جسٹس دوست محمد خان ہم سے ملنے آگئے، ہم نے ریفرنس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ذاتی مصروفیات ہیں جس کی وجہ سے تقریر تیار نہیں کرسکا، میں نے انہیں تقریر لکھنے کر دینے کی پیش کش کی، لیکن انہوں نے انکار کردیا، انہیں ڈنر اور لنچ کی پیش کش کی لیکن انہوں نے اس سے بھی انکار کردیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ اور نہ ہی جسٹس دوست محمد خان نے آج تک وضاحت کی کہ انہوں نے ریفرنس کیوں قبول نہیں کیا، ان کی تقریر دکھانے والی بات قطعی غلط ہے، پھر بھی میں اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اس پر معذرت کرتا ہوں اور ازالہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں مجھ پر الزامات لگائے گئے، بار نے مجھے اتنا گھٹیا، نیچ اور کم ظرف سمجھ لیا کہ اپنے جانے والے دوست اس طرح رخصت کروں گا کہ ساری زندگی اس پر ندامت ہوتی رہے، میںنے ان سے کبھی تقریر دکھانے کا نہیں کہا۔ جسٹس دوست محمد کل آجائیں انہیں فل کورٹ ریفرنس دینے کے لیے تیار ہوں۔واضح رہے کہ برطانوی نشریاتی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ جسٹس دوست محمد خان کو کہا گیا تھا کہ ریفرنس میں دی جانے والی تقریر کے مسودے کو وہ پہلے دکھا دیں لیکن اس درخواست کو انھوں نے رد کر دیا تھا، جبکہ کچھ ایسے اندورنی معاملات تھے جن کی بنا پر انھوں نے فل کورٹ ریفرنس نہ لینے کافیصلہ لیا۔ جسٹس دوست محمد نے ریٹائرمنٹ سے کچھ روز قبل ایک تقریر میں کہا تھا کہ سیاسی معاملات کو عدالت میں لانے سے آمریت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
#/S