دریائے ستلج کی بحالی … نسلوں کی خوشحالی
یہ ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے بھارت ستلج بیاس اور راوی کا پانی بند رکھ کر مسلسل سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بھارت کو صرف اس کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ ان دریاؤں کا پانی صرف زراعت کیلئے استعمال کرے گا مگر اپنے ہیڈ ورکس کے زیریں علاقوں کی آبی حیات‘ انسانوں اور جانوں کی پیاس بجھانے کیلئے پانی روکنے کا حق نہیں رکھتا۔
ستلج کی بندش سے بہاولنگر‘ بہاولپور اور رحیم یار خان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں زیرزمین پانی کی سطح کافی حد تک گر چکی ہے اور آرسینک کی مقدار میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ بھارت نے اپنے شہروں اور قصبوں کا گندہ‘ زہریلا اور آلودہ پانی دریا کے بیڈ میں چھوڑ دیا‘ اب اس پانی کو انسان استعمال کریں۔ آبی حیات تو مکمل ناپید ہو چکی ہیں‘ مچھلی‘ کچھوے اور پرندے بھی اس دریا کی حدود سے غائب شد!
اس ظلم کے خلاف ستلج کے علاقے میں سخت بے چینی کی لہر ہے جس نے ایک طوفان کی شکل اختیار کر لی ہے۔ امیر آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسیؒ نے صرف وطن کی محبت کی خاطر جنرل ایوب خان کے کہنے پر سندھ طاس معاہدہ پر دستخط کئے۔ بہاولپور کے لئے دو بڑی اور ایک چھوٹی نہر دینے کا وعدہ آج تک وفا نہ ہو سکا۔
نواز حکومت نے بھی اپنا وعدہ پورا نہ کیا کہ دریائے سندھ کا پانی ستلج میں ڈالا جائے گا تاکہ چولستان کو سیراب کیا جا سکے۔
متحدہ عرب امارات بھارت کو ہر سال ایک خطیر رقم دے رہا ہے کہ وہ ستلج میں پانچ ہزار کیوسک پانی چھوڑا کرے تاکہ رحیم یار خان میں ان کی فصلوں کیلئے پانی مہیا ہو لیکن وہ یہ پیسہ بھی ہڑپ کر رہا ہے۔
اس ظلم کے ذمہ دار حکمران ہیں انہیں آپس میںلڑائیوں سے ہی فرصت نہیں۔ ہرطرف کرپشن اور سوموٹو کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ میڈیا کو بھی نواز شریف اور عمران کے علاوہ کوئی اور موضوع نظر نہیں آتا۔
آپ ان الفاظ سے کیسے پیچھا چھڑا سکتے ہیں کہ ’’پاکستان کو صحرا بنا کر رہیں گے‘‘؟ کیا واجپائی کا بیان ریکارڈ پر نہیں کہ ’’بھارت پیاسا مر رہا ہے جبکہ پاکستان پانی ضائع کر رہا ہے‘‘ لیکن بھارتی وزیراعظم کی ذہنیت کے پیچھے چھپے طوفان اور مکاری کے پیچھے چھپی خشک سالیوں کو ہمارے حکمران پہچان نہ پائے۔
2006 ء میں بھارت نے مغربی دوستوں کی وسعت دامنی اور سخاوت خسروی سے 212 ارب ڈالر کے خطیر مالیت کے پانی کے منصوبے شروع کئے1992 ء سے لیکر2009 ء تک ہماری طرف آنیوالے پانی پر 52 ڈیم مکمل کئے دوسری طرف کالا باغ ڈیم کو سیاست کی نذر کر دیا گیا۔ سندھ طاس معاہدہ میں یہ طے تھا کہ منگلا اور تربیلا سے پہلے کالا باغ ڈیم بنایا جائے گا‘ ہمارے ازلی دشمن بھارت کو یہ منظور نہیں کہ پاکستان میں کالا باغ ڈیم بنے اور زراعت کو فروغ ملے‘ سرسبز لہلہاتی فصلیں ہوں اور بجلی پیدا ہو۔ بھارت کی ایماء پر اس کی سب سے بڑی مخالفت صوبہ سرحد سے ہوئی اور مخالفت میں آگے آگے خان عبدالولی خان اور ان کا خاندان تھا۔ خان عبدالولی ساری عمر یہ کہتے رہے اگر کالا باغ ڈیم بنا تو وہ اسے بم سے اڑا دیں گے۔
70 سالوں سے اقتدار میں بیٹھے حاشیہ برادر‘ ہندو بنیے کے چاپلوس اور حکومتی بزرجمہر یکم اپریل1948 ء کو پاکستان کی طرف آنے والے پانی کو بند کرنے کے عملی اقدام اور وطن عزیز کو زیر دام لانے کی سازش تک کو بھول گئے۔
یہ بات ذہن میں رکھیں جو عرف عام میں کہا جاتا ہے ہم نے دریا بیچ دیئے بالکل غلط ہے۔ ہمارا بھارت سے کوئی دریا بیچنے کا معاہدہ نہیں ہوا‘ سندھ طاس معاہدہ ’’زرعی پانی‘‘ کے استعمال کا معاہدہ ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں یہ معاہدہ ہوا تھا جو فوجی آمر تھے اور اس وقت تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی تھی‘ بہت سوں کو انہوں نے سیاست سے آؤٹ کر رکھا تھا۔ اس وقت بیورکریٹس کا دور تھا جن صاحب نے یہ معاہدہ بنایا تھا جس کے لئے وہ اڑھائی سال امریکہ بھی رہے کیونکہ ورلڈبنک اس کی ضامن تھی ان کا نام جی معین الدین تھا۔ عالمی طاقتیں لوگوں کو خریدنے کے لئے خوبصورت عورتوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں چنانچہ خوفناک اور پراسرار حالات میں ایک امریکی خاتون نے جی معین الدین کو گھیر لیا۔ بڑھاپے میں ہونے کے باوجود اس عورت سے بیاہ رچا لیا اور ان ڈھائی برسوں میں معاہدے کی تفصیلات طے کرنے کے لئے وہ زیادہ تر امریکہ ہوتے تھے اور پاکستان برائے نام کبھی کبھی آتے تھے‘ یہ عورت ان کی سیکرٹری بھی بن گئی۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ میرا سارا کام یہی موصوفہ کرتی ہیں تمام کاغذات ٹائپ کرتی ہیں اور ہر طرح سے میری مدد کرتی ہیں۔
اب اﷲ جانے وہ خاتون کس مقصد کے تحت ان کے ساتھ تھی اور کن طاقتوں کی تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ہم پابند ہیں کہ انڈیا سندھ چناب جہلم سے پینے کا پانی‘ آبی حیات کا پانی اور ماحولیات کا پانی لے سکتا ہے جی معین الدین کو چاہئیے تھا اگر وہ محب وطن انصاف پسند ہوتے تو وہی سہولت پاکستان کے لئے حاصل کرتے جو بھارت کے پاس ہے‘ اس طرح شقات میں اضافہ کر کے انڈیا سے دستخط کرواتے لیکن عجیب بات ہے کہ وہ یکطرفہ معاہدہ ہے۔
تاریخ کبھی ظالموں کی نہیں بنتی‘ نہ تاریخ سمجھوتہ کرنے والوں کی ہوتی ہے بلکہ ہمیشہ تاریخ ظلم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی ہوتی ہے!