بنگالی مسلمانوں کا پاکستان سے محبت کرنا جرم کیوں؟
بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا پاکستان سے اب تک محبت کرنے والے بنگلہ دیشیوں کو سزا ملنی چاہیے۔ بنگلہ دیش کے وہ شہری جو ایک خود مختار ملک میں رہتے ہوئے اب تک پاکستان سے محبت کرتے ہیں، وہ غدار ہیں۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن کی مدد سے بنگلہ دیشی شہریوں میں پاکستان کی محبت ختم ہوجائے جبکہ عوام کو بھی ان لوگوں کے خلاف سخت جواب دینا چاہیے جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ ہم ایسا نہیں کرسکتے تو ہمارا وجود مٹ جائے گا۔ بنگالی وزیراعظم نے الزام لگاتے ہوئے کہا بنگلہ دیش ناکامی کی جانب جائے گا تو اس سے پاکستان خوش ہوگا۔ بالکل ویسے ہی 1975 میں بنگلہ دیش کے حکمران پاکستان کو خوش کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت کے بنگلہ دیشی حکمران نہیں چاہتے تھے بنگلہ دیش ترقی کرے اور اسی لیے وہ پاکستانی فورسزکا ایجنڈا مسلط کر رہے تھے۔
یہ پہلی بار نہیں جب بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے پاکستان کے خلاف زہر اگلا ہے۔ بھارت زیر اثر حسینہ واجد شروع ہی سے بھارتی زبان بولتی رہی ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی جب بنگلہ دیش کے دارلحکومت ڈھاکہ میں اپنی بہن بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد سے سے ملنے پہنچے تو وہ بہت جذباتی تھے۔ دونوں بہن بھائی میں ایک قدر جو مشترک ہے وہ ہے پاکستانی دشمنی۔ اس سے پہلے نریندرمودی چین سمیت دوسرئے کئی ممالک کے دوروں کے دوران پاکستان مخالف راہ ہموار کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس مشترکہ دشمنی کے اظہار کیلئے حسینہ واجد نے نریندر مودی کے دورہ بنگلہ دیش کے دوران ایک تقریب میں سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو انتہائی قابل احترام سیاستدان قرار دیا اور نہ صرف بنگلہ دیش کی جنگ میں اْنکے "فعال کردار" کا ذکر کیابلکہ پاکستان توڑنے اور غیرمستحکم کرنے کے اعتراف میں واجپائی کو "فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ایوارڈ" دیا گیا جو نریندر مودی نے وصول کیا۔ اس سے قبل حسینہ واجد 2012ء میں اندرا گاندھی کو بھی اسی ایوارڈ سے نواز چکی ہے جسے کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے وصول کیا تھا۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی دشمن ہندو لیڈر شپ کے ساتھ شیخ حسینہ واجد کی کتنی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ اسی ذہنیت کے تحت پاکستان سے الحاق کی تمنا رکھنے والے بنگلہ دیش کے لاکھوں باشندوں کو شیخ مجیب الرحمان نے کیمپوں میں محصور کردیا۔ وہ خود کو آج بھی پاکستانی کہتے ہیں جس کی سزا وہ حسینہ واجد کے ادوار حکومت میں زندہ درگور ہو کر آج بھی بھگت رہے ہیں۔ انہیں پاکستان لا کر آباد کرنے کی معتمر عالم اسلامی کے پلیٹ فارم پر آج بھی کوششیں جاری ہیں اور ادارہ نوائے وقت نے بھی شروع دن سے آج تک ان پاکستانی محصورین کی واپسی اور کفالت کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے جس کیلئے محصور پاکستانیوں کا باقاعدہ فنڈ قائم کیا گیا ہے اور یہ فنڈ محصور پاکستانیوں کی روزمرہ کی ضرورتیں اور انکے بچوں کی صحت اور تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کیلئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
ہمارے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ تحریک قیام پاکستان کی جدوجہد میں برصغیر کے جن مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قیام پاکستان کی بنیاد بننے والی قرارداد لاہور پیش کی جس کے تحت بھارت کی کوکھ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کی صورت میں ایک آزاد اور خودمختار مملکت نے جنم لیا‘ ان مسلم قیادتوں کی ناخلف اولاد آج پاکستان سے محبت کرنیوالے اپنے شہریوں کو عبرت کا نشان بنانے کا سوچ رہی ہے۔
کیا ان تاریخی حقائق کو جھٹلایا یا تاریخ کی کتاب سے نکالا جا سکتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے سرکردہ قائدین میں زیادہ تر بنگال سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے نہ صرف انگریز اور ہندو کی غلامی سے برصغیر کے مسلمانوں کو نجات دلانے کیلئے آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا بلکہ وہ تحریک پاکستان میں قائداعظم کے ہراول دستے میں شامل رہے۔ اس وقت ’’بنگو بندھو‘‘ شیخ مجیب الرحمان خود تحریک پاکستان کے بے لوث کارکنوں میں شامل تھے اور قائداعظم کی ہر آواز پر لبیک کہا کرتے تھے۔
پاکستان نے تو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی اپنے بنگالی بھائیوں کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کئے رکھے اور پاکستان کی ہر حکومت کی بنگلہ دیش سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش اور خواہش رہی حتیٰ کہ ایک دو انٹرنیشنل کرکٹ میچوں میں خیرسگالی کے جذبے کے تحت پاکستان بنگلہ دیش کے ہاتھوں ہارنا بھی قبول کرتا رہا۔ مگر شیخ حسینہ واجد جب بھی برسراقتدار آئیں انہوں نے پاکستان کیخلاف نفرت کے جذبات کو ابھارا اور اس نفرت کا ڈھاکہ میں ہونیوالے پاکستان اور بنگلہ دیش کے کرکٹ میچ میں پاکستان کو جیتتا دیکھ کر رعونت کے ساتھ گرائونڈ سے واپس جا کر اظہار کیا۔
شیخ حسینہ واجد سفارتی ادب آداب کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے درحقیقت بھارت کے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کے ایجنڈے کے تحت پاکستان سے نفرت کے اپنے ساختہ فلسفے کو فروغ دے رہی ہیں۔ اسی کی بنیاد پر انکی حکومت نے مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک کی مزاحمت کرنیوالے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کئی سرکردہ لیڈران کو پھانسی کی سزا دی ہے جس کیخلاف انسانی حقوق کے حوالے سے انسانی حقوق کے عالمی فورموں پر آوازیں بھی اٹھائی جاچکی ہیں مگر انکی قاتل شیخ حسینہ واجد ٹس سے مس نہیں ہوئیں اور وہ انتہاء پسند ہندو لیڈرشپ سے بھی آگے بڑھ کر پاکستان دشمنی کو فروغ دے رہی ہیں اور پاکستان سے نفرت کے راگ الاپ رہی ہیں۔ انہیں یہ حقیقت ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ ہندو لیڈر شپ کی نفرت پاکستان سے زیادہ مسلمانوں کے ساتھ ہے اور آج مسلم دنیا کو کمزور کرنے کیلئے ہی ہنود و یہود گٹھ جوڑ ہوا ہے۔ اس تناظر میں بھارت بنگلہ دیش کا کبھی مخلص نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا وجود بھی متعصب ہندو لیڈر شپ کے اکھنڈ بھارت کے فلسفہ پر ضرب کاری لگاتے ہوئے ہی قائم ہوا۔
٭٭٭٭٭٭٭