ایسے ہو تو ایسے ہو
قومیں اپنے ایسے افراد کے بل بوتے پر زندہ رہتی ہیں جو مثبت طرز فکر رکھتے ہوں جو علم، شعور اور آگہی کو ترقی کے زینے گردانتے ہوں۔ کیونکہ کوئی بھی قوم ایک دن میں عظمت کے درجوں پر فائز نہیں ہوا کرتی۔ اس کے پیچھے برس ہا برس کی جدوجہد درکار ہوتی ہے۔ گویا قوم کا ہر ہر فرد اہم ہوتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہوتی ہے کہ معاشرے میں ایساکلچر موجود ہو جہاں لوگوں کو ایکسپوژر ملے اور اُن میں کچھ کر گزرنے کی ترنگ پیدا ہو۔ پاکستان میں کراچی اور لاہور ایسے مقامات ہیں جو اس حوالے سے ایک پہچان رکھتے ہیں کہ وہاں علمی و ادبی مواقع ہمیشہ سے بہت زیادہ رہے ہیں۔ پشاور اور کوئٹہ بھی اپنا ایک علمی ادبی پس منظر رکھتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے حوالے سے بہرکیف ایک تاثر رہا ہے کہ یہ گریڈوں کا شہرہے۔ یہاں علمی و ادبی ماحول اس طرح سے نہیں پنپ سکتا جس طرح سے پاکستان کے باقی شہروں میں ہے۔ اس کے باوجود کہ یہاں اکیڈمی ادبیات اور مقتدرہ قومی زبان ایسے ادارے موجود ہیں پھر بھی اسلام آباد کے حوالے سے عمومی تاثر یہی ہے کہ یہاں کے لوگ شاید اتنے سوشل نہیں اور وہ علمی و ادبی دلچسپیوں سے گریزاں ہیںلیکن گزشتہ چند سالوں سے اسلام آباد علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے نہ صرف کراچی، لاہور کے ہم پلہ بلکہ بعض حوالوں سے بہت آگے چلتا دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے جہاں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی سربراہی میں نیشنل بک فاﺅنڈیشن مسلسل کتاب میلے منعقد کروا رہی ہے وہاں ماہر تعلیم محقق اور دانشور ڈاکٹر شاہد صدیقی ایسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں جنہوں نے صرف اسلام آباد ہی نہیں بلکہ ملک بھر سے تعلق رکھنے والے بک لورز اور خیال و فکر سے وابستہ طبقوں کی پیاس یوں بجھانے کا بیڑہ اٹھایا ہے کہ انہوں نے باقاعدگی سے لٹریچرفیسیٹولز کا اہتمام کروا کر علم و شعور کی روشنی پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ رواں برس بھی اوپن یونیورسٹی میں قومی و ادبی کانفرنس پروگرام معاشرے کی تشکیل نو میں ادب کا کردار کے تحت چار روزہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں ملک بھر سے شعراء، ادباءاور دانشوروں نے شرکت کی۔ اس دوران صحافت اور سیاست، ادب کی اشاعت مسائل اور امکانات، میاں محمدبخش کے صوفیانہ افکار، معاصر اردو افسانے، معاصر اردو نظم، فیض کے بعد، ادب اور سوشل میڈیا جیسے اہم موضوعات کے حوالے سے نشستوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ دیگر تقریبات کا انعقاد ہوا۔ مشاعرہ جس کی صدارت افتخارعارف نے کی ، شائقین نے بہت دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ لوگوں کے محبوب ادیب عطاالحق قاسمی کے ساتھ بزبان قاسمی کے تحت نشست خاصے کی چیز تھی۔ الغرض صرف اوپن یونیورسٹی کے طلباءو طالبات جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لئے بلکہ شعرا و ادب سے شغف رکھنے والے خواتین و حضرات کو یہ موقع بھی ملا کہ وہ اپنے پسندیدہ لکھاریوں اور دانشوروں سے ملیں، اُن کے خیالات اور تجربات سے آگاہی حاصل کریں۔ لوگوں میں شعر و ادب کا شغف پیدا کرنے، رواداری اور محبت کی فضا قائم کرنے اور ملک میں عمومی طور پر امن کے فروغ میں ڈاکٹر شاہد صدیقی اور ان کی کاوشیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ میں سمجھتا ہوں ان کی تقلید کرتے ہوئے باقی جامعات کے سربراہاں اور دیگر شعبوں کو بھی آگے بڑھ کر اپنے اپنے حصے کی شمع جلانی ہو گی۔ا س حوالے سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھی بہت مو¿ثر ہونے کی ضرورت ہے کہ یہ ادارہ ملک بھر کی جامعات کو اس امر کا پابند کر سکتا ہے کہ وہ بھی اپنی اپنی سہولت اور وقت کے مطابق اپنے ہاں لٹریچری فیسٹیولز کا انعقاد کروا کر کتب بینی کو فروغ دےں کیونکہ جن ہاتھوں میں کتاب تھما دی جاتی ہے وہ ہاتھ ہمیشہ معاشرے کی فلاح اور بہبود کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے کبھی استعمال نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا اداروں کو اپنے اپنے حصے کا کام دلجمعی سے کر کے ملکی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالتے رہنا چاہئے کہ خوبصورت عمارت ایک ایک اینٹ لگا کر ہی تیار کی جاتی ہے۔ اپنے حصے کے پھول، اپنے حصے کے درخت اور اپنے حصے کی خوشبوئیں بکھیرتے رہئے کہ ایک عظیم تر اور خوبصورت معاشرہ اسی طرح پروان چڑھتا ہے۔