دفاعی ضروریات ہر صورت پوری کی جائیں‘ دفاعی بجٹ پارلیمان میں ان کیمرہ پیش کیا جا سکتا ہے
بجٹ حکمت عملی منظور‘ ترقیاتی منصوبوں میں کٹوتی‘ بھاشا ڈیم کیلئے رقم مختص‘ دفاعی بجٹ میں غیرمعمولی اضافہ نہ کرنے کا عندیہ
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سہ سالہ بجٹ سٹریٹجی پیپر کی منظوری دیدی گئی۔ وزیراعظم کی صدارت میں ایکنک کے اجلاس میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کو بھی منظور کر لیا گیا۔ وزیراعظم کی صدارت میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس الگ سے منعقد ہوا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سہ سالہ بجٹ سٹریٹجی پیپر (2018-19-2021) پر غور کیا گیا۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا سہ سالہ بجٹ سٹریٹجی پیپر کے 4 وسیع اہداف ہیں۔ ان میں پائیدار ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنا‘ مالیاتی استحکام‘ ادائیگی کے توازن کو منظم رکھنا اور قرضوں کو قابل برداشت سطح پر رکھنا شامل ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا حکومت نے حال ہی میں معاشی اصلاحات کے پیکیج کا اعلان کیا۔ ٹیکس ریٹ میں کمی کی گئی ۔ ٹیکس کی بنیاد کو بڑھایا گیا۔ رئیل سٹیٹ میں اصلاحات لائی گئی ہیں۔ ایمنسٹی سکیم‘ زرمبادلہ کے متعلق رجیم کو سخت کیا گیا اس سے ریونیو میں اضافہ ہو گا اور خسارہ میں کمی آئیگی۔ وزیراعظم نے زور دیا قرضوں کے حصول کی بجائے آمدن اور ریونیو بڑھنے سے ملک کو فائدہ ہو گا۔ ایکنک کے اجلاس میں دیامیر بھاشا ڈیم پر غور کیا گیا جس کے بعد ڈیم کی تعمیر کے حصے کی منظوری دیدی گئی۔ اس پر 474 ارب روپے لاگت آئیگی۔ ’’انصاف تک رسائی‘‘ پروگرام کی بھی منظوری دیدی گئی۔ اس پر 4 ارب 71 کروڑ روپے لاگت آئیگی۔ اس منصوبے کے تحت عدالتی‘ پولیس اور قانونی اصلاحات کی جائیں گی۔ انتظامی ریفارمز بھی ہوں گے اور فزیکل انفراسٹرکچر بھی بنایا جائیگا۔ ریلویز کے تحت لودھراں‘ ملتان‘ شاہدرہ‘ مین لائن سیکشن پر اولڈ گیئر سسٹم کو بدلنے کا منصوبہ بھی منظور کر لیا گیا۔ اس پر 18 ارب 34 کروڑ روپے لاگت آئیگی۔ 24 ریلوے کراسنگ جہاں اس وقت کوئی نگران موجود نہیں ہے وہاں نگرانی کیلئے عملہ تعینات ہو گا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حجم 55سو ارب سے زائد ہوگا۔ دستاویز کے مطابق ترقیاتی بجٹ میں 25ارب کی کٹوتی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں کوئی غیرمعمولی اضافہ نہیں کیا جارہا ہے۔ اس بات کی تصدیق وزیراعظم کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی کر دی ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ دفاعی بجٹ میں آرمڈ فورسز ڈویلپمنٹ پلان کے تحت اضافہ کیا جائیگا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ دفاعی بجٹ میں ریگولر اضافہ سامنے آئیگا اور دفاعی بجٹ میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہو گا۔ بجٹ 2017-18ء کیلئے دفاعی بجٹ 920.2 ارب روپے رہا۔ آئندہ مالی سال 2018-19ء کیلئے دفاعی بجٹ 1.013 کھرب روپے تک بڑھایا جا سکتا ہے جو پچھلے سے لگ بھگ 10 فیصد زائد ہے۔
2013ء میں عام انتخابات کے بعد منتخب حکومت اور اسمبلیاں 31 مئی کو اپنی آئینی مدت پوری کررہی ہیں۔ مالی سال کا آغاز یکم جولائی سے ہوتا ہے۔ مرکزی حکومت اگلے مالی سال کا بجٹ رواں ماہ 27 اپریل کو پیش کررہی ہے جو پورے سال کیلئے ہوگا۔ عمران خان نے کہا ہے کہ خیبر پی کے میں انکی پارٹی کی حکومت بجٹ پیش نہیں کریگی۔ صوبے کا بجٹ انتخابات کے بعد منتخب ہونیوالی حکومت پیش کریگی۔ پی ٹی آئی سے ماہرین نے سوال کیا کہ اگر بجٹ پیش نہ کیا گیا تو انتخابات کے بعد حکومت سازی تک کے مالی معاملات خصوصی طور پر تنخواہوں کی منظوری وغیرہ کون دیگا۔ یہ سارے معاملات مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے پیش نظر ہیں‘ اس لئے انتخابات سے قبل بجٹ پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ چونکہ ہر حکومت کا انتخابات سے قبل آخری بجٹ ہوگا‘ انکی طرف سے عوام دوست بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی جائیگی۔ کسی بھی حکومت کے پہلے یا آخری بجٹ سے قطع نظر ہر بجٹ عوام دوست ہونا چاہیے۔ آئندہ مالی سال کی بجٹ سازی کے دوران اسی پہلو کو خصوصی طور پر مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اہداف حقائق کو مدنظر رکھ کر متعین کئے جائیں۔ صرف عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش میں ایسے غیرحقیقی اقدامات سے گریز کیا جائے جو اگلی حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بنیں۔ مرکز اور صوبوں میں آج کی حکومتوں کا تسلسل بھی جارہی رہ سکتا ہے۔
سہ سالہ سٹریٹجی:
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے وژن 2025ء کے تحت منصوبہ بندی کر رکھی ہے‘ ویسے تو اسکی طرف سے وژن 2030ء اور 2050ء تک کی بھی بات ہوتی ہے۔ قومی سطح کی پالیسیوں میں تسلسل رہے تو وژن کے تحت منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں۔ کابینہ کے اجلاس میں تین سالہ بجٹ سٹریٹجی پیپرز کی منظوری دی گئی‘ سیاسی حکومتوں کے تسلسل میں انتخابات کے چند ماہ کا وقفہ ہوتا ہے جبکہ بیوروکریسی اپنی جگہ موجود ہوتی ہے۔ یہی بیوروکریسی قومی مفاد کی پالیسیوں کے تسلسل اور ان پر عمل کی ذمہ دار بلکہ ضامن ہوتی ہے۔ سیکرٹری خزانہ نے کابینہ کے اجلاس میں سہ سالہ بجٹ سٹریٹجی کے 4 اہداف پر بریفنگ دی‘ اس میں مالیاتی استحکام اور قرضوں کو قابل برداشت سطح پر رکھنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ سٹریٹجی پیپر کے 4 اہداف سے کسی بھی پارٹی کی حکومت کو انکار نہیں ہو سکتا۔ آئندہ حکومت اگر مسلم لیگ (ن) کے بجائے کسی اور پارٹی کی بنتی ہے تو مذکورہ چار اہداف ملکی معیشت اور مالیات کے حوالے سے رہنماء اصول ثابت ہو سکتے ہیں۔
آمدن بڑھانے پر زور:
آج پاکستان کی معیشت کو قرضوں کے بھوت نے بری طرح جکڑ رکھا ہے۔ اندرونی و بیرونی قرضوں کی مالیت نوے کھرب ڈالر تک پہنچنے کو ہے۔ پاکستان میں یہ قرضوں کی ریکارڈ مالیت ہے۔ دوسری طرف زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کچھ قرضہ تو قرض اتارنے کیلئے اور کچھ زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کیلئے لیا جاتا ہے۔ ایکنک کے اجلاس میں وزیراعظم نے زور دیا کہ قرضوں کے حصول کے بجائے آمدن اور ریونیو بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ مسلم لیگ (ن) اپنی پانچ سالہ حکومت کے دوران قرضوں کے حصول کے بجائے آمدن اور ریونیو میں اضافے کو مقصد بناتی تو قرضوں سے مکمل نجات نہ بھی ملتی‘ اس کا حجم ضرور کم ہوجاتا۔ بہرحال اب بھی کوشش کی جائے تو بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
بھاشا اور کالاباغ ڈیم :
اجلاس میں بھاشا ڈیم پر غور کیا گیا اور اسکی تعمیر کی منظوری دی گئی۔ بھاشا ڈیم بلاشبہ اہمیت کا حامل ہے‘ مگر بات اسکے افتتاحوں اور منظوری سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اسکی تعمیر سے یقیناً پانی اور بجلی کی کمی کسی حد تک دور ہوسکے گی مگر یہ کالاباغ ڈیم کا متبادل نہیں ہے۔ حکومت بجٹ میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی تجویز رکھے اور تعمیر کی کوئی سبیل نکالنے کی اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ کوشش کرے۔
انصاف تک رسائی پروگرام:
وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں اس پروگرام کی منظوری دی گئی جس کیلئے پونے پانچ ارب روپے لاگت آئیگی۔ آج انصاف کا حصول مشکل اور وکلاء کی فیسوں کے باعث مہنگا بھی ہے۔ لوئر کورٹس میں ججوں کی تعداد پوری نہیں ہے۔ اس پروگرام کی کامیابی سے معاشرے میں انصاف کے حصول کے حوالے سے بے چینی ختم ہوگی۔
قاتل ریلوے کراسنگز :
بجٹ میں ریلوے کے 24 کراسنگ نگرانی کیلئے عملہ تعینات کرنے کی تجویز ہے۔ نگرانی ضروری ہے‘ اسکے ساتھ کوئی بھی کراسنگ بغیر پھانک کے نہیں ہونا چاہیے‘ یہ بدترین حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ 24 کراسنگ پر پھاٹک لگانے پر آخر کتنا خرچہ آسکتا ہے جبکہ انسانی جانوں کی تو کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔
دفاعی بجٹ:
دفاعی بجٹ میں ریگولر اضافے کی تجویز ہے جو عموماً دس فیصد کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ ہم ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرسکتے ہیں‘ دیگر اخراجات پر نظرثانی ہو سکتی ہے تعلیم و صحت کی طرح مگر دفاعی بجٹ پر کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ ہمیں بدترین اور عیار و مکار دشمن کا سامنا ہے جو ہر سال اپنے دفاعی بجٹ میں ہوشربا اضافہ کرتا ہے‘ گو پاکستان بھارت کے ساتھ اسلحہ کی دوڑ میں شامل نہیں ہے مگر اپنے دفاع کیلئے ہر ممکن اقدام کرنا ضروری ہے۔ اس نے رواں سال اپنے دفاعی بجٹ میں اندھا دھند کرکے کل مالیت 30 کھرب روپے کرلی۔ کرنسیوں کے فرق کو مدنظر رکھا جائے تو بھارتی دفاعی بجٹ کی مالیت 50 کھرب پاکستانی روپے کے قریب بنتی ہے جبکہ پاکستان کے کل بجٹ کا تخمینہ 55 کھرب روپے کے لگ بھگ متوقع ہے۔ ہمیں اپنے وسائل اور دفاعی ضروریات کے درمیان توازن رکھتے ہوئے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانا ہے۔ قوم دفاع کے معاملے میں فراخدل ثابت ہوئی ہے۔ جہاں دفاعی ضروریات ہرصورت پوری کرنے کی ضرورت ہے‘ وہیں دفاعی بجٹ پارلیمان میں بھی لانے میں حرج نہیں۔ زیادہ حساس معاملات ان کیمرہ رکھے جاسکتے ہیں۔