’’جناب اگر آج بھی وارننگ جاری ہو جائے کہ اگلے سال سیلاب آنا ہے تو انہوں نے کچھ بھی نہیں کرنا اس سے بچائو کیلئے‘‘ میرے کانوں میں محکمہ موسمیات کے ایماندار اور ذمہ دار اہلکار کے الفاظ گونج رہے ہیں، جب آنیوالے ممکنہ سیلاب (الہ پاک اس سے محفوظ رکھے) کی تباہ کاریوں سے بچائو کیلئے ذمہ دار اداروں کی تیاریوں پر ایک نظر ڈالی اور اندازہ ہوا ہے کہ اگر گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی سیلاب آ جائے (جس کا امکان بھی ہے) تو اس سے بچائو کیلئے ہمارا گزارہ صرف دعائوں پر ہے کہ دوا کرنے کی شاید ہمیں عادت نہیں۔
موسمیاتی تبدیلیاں ایک واضح حقیقت ہیں جن سے انکار ممکن نہیں، پوری دنیا میں ان تبدیلیوں کے اثرات نظر آتے ہیں۔ کہیں برف باری میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے تو کہیں معمول سے ہٹ کر بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کہیں سیلاب نے تباہی مچاہی ہے تو کہیں قحط نے صورت موت پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھی ایک عرصے سے ان تغیرات کی زد میں ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان ان تبدیلیوں سے متاثرہ سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ ہمارے ہاں جیسے تمام موسم دستیاب ہیں اسی طرح ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونیوالے ہر قسم کے اثرات بھی دستیاب ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں سے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں شدید سیلاب ہمارے لئے معمول کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب تھر میں قحط نے تباہی مچائی ہوئی ہے شہری علاقوں میں پانی کی سطح میں ڈرامائی کمی اور پینے کے پانی کی پراگندگی ایک اور شدید مسئلے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ فضائی آلودگی کے حوالے سے ہمارے دو صوبائی دارالحکومت پشاور اور کوئٹہ دنیا بھر میں امتیازی حیثیت حاصل کرتے ہوئے ٹاپ ٹین میں شامل ہیں۔ لیکن ہم ہیں کہ ان مسائل کو حل کرنے اور اس قدر تباہی سے نبرد آزما ہونے کیلئے اقدامات ہمارے قومی ایجنڈے پر کہیں دکھائی ہی نہیں دیتے۔ہمارے وزراء بجلی کے مسئلے کا حل پیش کرتے ہیں کہ ’’دعا کریں کہ بارش ہو‘‘ انکے پاس شدید بلکہ یقیناً سیلاب سے بچائو کا حل بھی موجود ہو گا کہ ’’دعا کریں کہ بارش نہ ہو‘‘ لیکن صاحبو کیا ہے کہ ہماری دعائیں بھی بازار میں دستیاب مچھر مار دوائوں کی طرح بے اثر ہو چکی ہیں کیونکہ کسانوں کی دعائوں کے باوجود وسطی پنجاب میں فروری اور مارچ کے مہینے میں معمول سے ہٹ کر ہونیوالی شدید بارشوں نے گندم کی فصل کے ایک بڑے حصے کو نقصان پہنچایا ہے شنید ہے کہ ان بارشوں سے فصلوں کو تقریباً 30 فیصد نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ برس مون سون بارشوں اور پھر چناب، راوی اور جہلم میں آنیوالے سیلاب نے انہیں علاقوں میں چاول کی فصل کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ غریب کسان کب تک لگا تار دونوں فصلوں کا نقصان برداشت کر سکے گا؟ لیکن شاید تنخواہ دار سرکاری افسران جنہیں ہر ماہ مقررہ تاریخ پر لگی بندھی رقم مل جاتی ہے اچھی فصل کی امید پر اپنی جمع پونجی سے کی گئی سرمایہ کاری اور خون پسینے سے کی گئی محنت پر پانی بھر جانے سے ہونیوالے اس کرب سے نا آشنا ہیں جس سے کسان گزرتا ہے تبھی تو سیلاب سے بچائو کیلئے کئے جانیوالے اقدامات کا کوئی فوری عمل کا منصوبہ منصئہ شہود پر نہیں ہے۔ فیڈرل فلڈ کمیشن کے سربراہ سیلاب کے حوالے سے اقدامات کرنے کے بجائے دوسرے ممالک سے آنیوالے وفود کیلئے انتظامات میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور روایتی طور 1977ء سے جاری دس سالہ فلڈ پروٹیکشن پلان کا فیز 4 اپنے روایتی طریق کے مطابق تیاریوں کے مراحل میں ہے عملدرآمد کا عالم یہ ہے کہ 2015-25ء کیلئے تیار ہونیوالا منصوبہ شاید منظوری کے بعد 2016ء میں عمل میں لایا جا سکے گا چاہے اس وقت تک پلوں کے نیچے اور آبادیوں اور فصلوں کے اوپر سے جتنا بھی پانی گزر چکا ہو۔ معروف ادارے جرمن واچ کی رپورٹ کیمطابق پاکستانی معیشت کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والی آفات سے سالانہ 21 ارب روپے کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق 2014ء میں آنیوالے سیلاب کے باعث پنجاب اور آزاد کشمیر میں ہونیوالے نقصانات کے ازالے کیلئے 43.97 ارب روپے اور دوبرس درکار ہونگے اور اگر ان علاقوں میں آئندہ سیلابوں سے ہونیوالے خطرات میں کمی کرنا مقصود ہے تو مزید ساڑھے پانچ ارب روپے خرچ ہونگے۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ سال 2014-15ء کیلئے تمام پانچ صوبوں اور قبائلی علاقوں کیلئے دریائوں اور دیگر آبی ذرائع کی بہتری کیلئے مانگے گئے پانچ ارب روپے کی جگہ صرف ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور آئندہ برس بھی اس مد میں ساڑھے پانچ ارب روپے کی ڈیمانڈ کی گئی ہے دیکھتے ہیں کہ اس میں سے کتنے کی منظوری دیجاتی ہے۔ محکمہ موسمیات، نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ سمیت دیگر متعلقہ ادارے اپنے روایتی طریق اور شیڈول کے مطابق پری مون سون تیاریوں میں مصروف ہیں جبکہ صورتحال فوری اور موثر اقدامات کی متقاضی ہے۔ حکومت نے ایک مستحسن اقدام کلائمیٹ چینج کی وفاقی وزارت کی بحالی کی صورت میں کیا ہے۔ موجودہ صورتحال تقاضہ کرتی ہے کہ اس وزارت کو بھرپور طریقے سے کام کرنے کا موقع دیا جائے اور 2011ء میں ڈرافٹ کی جانیوالی نیشنل کلائمینٹ چینج پالیسی کا ہر سطح پر نفاذ یقینی بنایا جائے تاکہ قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونیوالی تباہ کاریوں کے اثرات میں کمی اور بحالی کی استعداد میں اضافہ ہو سکے۔ مشاہد اللہ خان سردگرم چشیدہ اور زیرک سیاستدان ہیں، ویژن اور قوت عمل بھی رکھتے ہیں انکی سربراہی میں اس اہم وزارت سے بہترین نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے اور امید بھی کہ وہ ان توقعات پر پورا اتر سکیں گے۔ ورنہ ہم دعا تو کر سکتے ہیں کہ …بارش ن ہو۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024